June 22, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 114

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اﷲ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگادے کہ ان میں اﷲ کا نام لیا جائے اوران کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں ) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ۔ ایسے لوگوں کیلئے دنیامیں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا

 آیت 114:   وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہ:  اور اُس شخص سے بڑھ  کر ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں سے (لوگوں کو) روکے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے؟  

            مشرکین ِمکہ نے مسلمانوں کو مسجدِ حرام میں حاضری سے محروم کر دیا تھا اور ان کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ 6 ہجری میں رسول اللہ   نے صحابہ کرام  کے ہمراہ عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر فرمایا ، لیکن مشرکین نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ اس موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی اور آپ کو عمرہ کیے بغیر واپس آنا پڑا۔ پھر اگلے برس 7 ہجری میں آپ   نے صحابہ کرام  کے ہمراہ عمرہ ادا کیا۔ تو یہ سات برس ٌمحمد رسول اللہ   اور اہل ایمان پر بہت شاق گزرے ہیں۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس ظلم کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رکھا ہے۔

              وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا:   اور وہ ان کی تخریب کے درپے ہو؟  

            خراب اور تخریب کا مادئہ اصلی ایک ہی ہے۔ تخریب دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ظاہری تخریب کہ مسجد کو گرا دینا،  اور ایک باطنی اور معنوی تخریب کہ اللہ کے گھر کو تو حید کی بجائے شرک کا اڈہ بنا دینا۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کوبت ُکدہ بنا دیا تھا:

دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم  اس کے  پاسباں ہیں وہ  پاسباں  ہمارا!

خانہ کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے،  جسے ابراہیم  نے توحید ِخالص کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مساجد کے ساتھ لفظ  خراب  ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ یہ بڑی دلدوز حدیث ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ذہن نشین کر لیں۔

            حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ   نے فرمایا: ((یُوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ))  «اندیشہ ہے کہ لوگوں پر (یعنی میری اُمت پر) ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ   ((لَا یَـبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہ)) اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا ((وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْــقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہ))  اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط (الفاظ اور حروف) کے سوا کچھ نہیں بچے گا »۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی ضمانت دی ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ و حروف من َوعن محفوظ رہیں گے۔ ((مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی))  ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہو جائیں گی ۔ (یہاں بھی لفظ  خراب  نوٹ کیجیے۔ گویا معنوی اعتبار سے یہ ویران ہو جائیں گی۔) ((عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاء)) ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بد ترین انسان ہوں گے۔ ((مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْـنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ))    فتنہ اُن ہی کے اندر سے بر آمد ہو گا اور انہی میں گھس جائے گا »۔ یعنی ان کا کام ہی فتنہ انگیزی ،  مخالفت اور جنگ و جدال ہو گا۔ اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے رہنا اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کو ہوا دینا ہی اُن کا کام رہ جائے گا۔

            آج جن کو ہم علماء کہتے ہیں ان کی عظیم اکثریت اس کیفیت سے دو چار ہو چکی ہے۔ جب مذہب اور دین پیشہ بن جائے تو اس میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا۔ دین اور مذہب پیشہ نہیں تھا،  لیکن اسے پیشہ بنا لیا گیا۔ اسلام میں کوئی پیشوائیت نہیں،  کوئی پاپائیت نہیں،  کوئی برہمنیت نہیں۔ اسلام تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہرشخص کتاب اللہ پڑھے،  ہر شخص عربی سیکھے اور کتاب اللہ کو سمجھے۔ ہر شخص کو عبادات کے قابل ہونا چاہیے۔ ہر شخص اپنی بچی کا نکاح خود پڑھائے،  اپنے والد کا جنازہ خود پڑھائے۔ ہم نے خود اسے پیشہ بنا دیا ہے اور عبادات کے معاملے میں ایک خاص طبقے کے محتاج ہو گئے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا : ع

پیشے میں عیب نہیں  رکھیے نہ فرہاد کو نام!

ایک چیز جب پیشہ بن جاتی ہے تو اس میں پیشہ ورانہ چشمکیں اور رقابتیں در آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات واضح رہے کہ دنیا کبھی علماء حق سے خالی نہیں ہو گی۔ چنانچہ یہاں علماء حق بھی ہیں اور علماء سو بھی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا حال وہی ہو چکا ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے،  ورنہ اُمت کا یوں بیڑہ غرق نہ ہوتا ۔

             اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآئِفِیْنَ:   ایسے لوگوں کو تو ان میں داخل ہی نہیں ہونا چاہیے مگر ڈرتے ہوئے۔  

            ان لوگوں کو لائق نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں داخل ہوں،  یہ اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔

              لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ:   ان کے لیے دنیا میں بھی ّذلت و رسوائی ہے  

             وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ:  اور آخرت میں ان کے لیے عذابِ عظیم  ہے۔  

            اگلی آیت میں تحویل قبلہ کے لیے تمہید باندھی جا رہی ہے۔ قبلہ کی تبدیلی بڑا حساس معاملہ تھا۔ جن لوگوں کو یروشلم اور بیت المقدس کے ساتھ دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اُس کی عقیدت جا گزیں تھی،  جبکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے ساتھ جن کو دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت تھی۔ تو اس حوالے سے قبلہ کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہجرت کے بعد قبلہ دو دفعہ بدلا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ مدینے میں آ کر رسول اللہ   نے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ اس طرح اہل ایمان کے کئی امتحان ہو گئے،  ان کا ذکر آگے آجائے گا۔ لیکن یہاں اس کی تمہید بیان ہو رہی ہے۔ 

UP
X
<>