قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 104
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ایمان والو! (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر) ’’ رَا عِنَا ‘‘ نہ کہا کرو اور ’’ اُنْظُرْنَا‘‘ کہہ دیاکر و۔ اور سنا کر و ۔ اور کافروں کیلئے درد ناک عذاب ہے
آیت 104: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا: اے ایمان والو تم «رَاعِنَا» مت کہا کرو،
وَقُوْلُوا انْظُرْنَا: بلکہ «اُنْظُرْنَا» کہا کرو
وَاسْمَعُوْا: اور توجہ ّسے بات کو سنو!
قبل ازیں منافقین بنی اسرائیل کا ذکر ہوا تھا ، جن کا قول تھا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ۔ اب یہاں اُن منافقین کا طرزِ عمل بیان ہو رہا ہے جو مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے اور یہود کے زیر اثر تھے۔ یہودی اور ان کے زیر اثر منافقین جب رسول اللہ کی محفل میں بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی کوئی بات انہیں سنائی نہ دیتی یا سمجھ میں نہ آتی تو وہ «رَاعِنَا» کہتے تھے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ذرا ہماری رعایت کیجیے، بات کو دوبارہ دہرا دیجیے، ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اہل ِایمان بھی یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن یہود اور منافقین اپنے خبث ِ باطن کا اظہار اس طرح کرتے کہ اس لفظ کو زبان دبا کر کہتے تو «رَاعِیْنَا» ہو جاتا (یعنی اے ہمارے چرواہے!) اس پر دل ہی دل میں خوش ہوتے اور اس طرح اپنی خباثت ِنفس کو غذا مہیا ّ کرتے۔ اگر کوئی ان کو ٹوک دیتا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو تو جواب میں کہتے ہم نے تو «رَاعِنَا» کہا تھا، معلوم ہوتا ہے آپ کی سماعت میں کوئی خلل پیدا ہو چکا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم اس لفظ ہی کو چھوڑ دو، اس کی جگہ کہا کرو: «اُنْظُرْنَا»۔ (یعنی اے نبی ہماری طرف توجہ فرمایئے! یا ہمیں مہلت دیجیے کہ ہم بات کو سمجھ لیں)۔ اور دوسرے یہ کہ توجہ سے بات کو سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔
وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: اور ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔