قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 102
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور یہ (بنی اسرائیل) ان (منتروں) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کے زمانے میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے کوئی کفر نہیں کیا تھا، البتہ شیاطین لوگوں کو جادو کی تعلیم دے کر کفر کا ارتکاب کرتے تھے ۔ نیز (یہ بنی اسرائیل) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر ناز ل کی گئی تھی۔ یہ دو فرشتے کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں کہ : ’’ ہم محض آزمائش کیلئے (بھیجے گئے) ہیں، لہٰذا تم (جادو کے پیچھے لگ کر) کفر اختیا ر نہ کرنا ۔‘‘ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کردیں ۔ (ویسے یہ واضح رہے کہ) وہ اس کے ذریعے کسی کو اﷲ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے (مگر) وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو ان کیلئے نقصان دہ تھیں، اور فائدہ مند نہ تھیں ۔ اور وہ بھی خوب جانتے تھے کہ جو شخص ان چیزوں کا خریدار بنے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز بہت بری تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں ۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا حقیقی) علم ہوتا
آیت 102: وَاتَّـبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ: انہوں نے پیروی کی اُس علم کی جو شیاطین پڑھا کرتے تھے سلیمان کی بادشاہت کے وقت،
اللہ تعالیٰ نے ّجنات کو حضرت سلیمان کے تابع کر دیا تھا۔ اُس وقت چونکہ ان کا انسانوں کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا تھا ، لہٰذا یہ انسانوں کو جادو وغیرہ سکھاتے رہتے تھے۔
وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا: اور سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ یہ تو شیاطین تھے جو کفر کرتے تھے
یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ: وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
جادو کفر ہے، لیکن آپ کو آج بھی نقشِ سلیمانی کی اصطلاح سننے کو ملے گی۔ اس طرح بعض مسلمان بھی ان چیزوں کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور وہ ظلم اب بھی جاری ہے۔
وَمَـآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْتَ: اور (وہ اُس علم کے پیچھے پڑے) جو نازل کیا گیا دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر بابل میں۔
بابل (Babylonia)عراق کا پرانا نام تھا۔ یروشلم پر حملہ کرنے والا بخت نصر (Nebuchadnezzar) بھی یہیں کا بادشاہ تھا اور نمرود بھی بابل ہی کا بادشاہ تھا۔ نمرود عراق کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا جس کی جمع «نماردۃ» ہے۔ حضرت سلیمان کے دورِ حکومت میں جنات اور انسانوں کا باہم میل جول ہونے کی وجہ سے جنات لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آخری آزمائش کے لیے دو فرشتوں کو زمین پر اتارا جو انسانی شکل و صورت میں لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ خود ہی یہ واضح کر دیتے تھے کہ دیکھو جادو کفر ہے، ہم سے نہ سیکھو۔ لیکن اس کے باوجود لوگ سیکھتے تھے۔ گویا اُن پر اتمامِ حجت ہو گیا کہ اب ان کے اندر خباثت پورے طریقے سے گھر کر چکی ہے ۔
وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ: اور وہ نہیں سکھاتے تھے کسی کو بھی
حَتّٰی یَـقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْـنَۃٌ فَلاَ تَـکْفُرْ: یہاں تک کہ وہ کہہ دیتے تھے کہ دیکھو ہم تو آزمائش کے لیے بھیجے گئے ہیں، پس تم کفر مت کرو۔
فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہ بَیْنَ الْمَرْء وَزَوْجِہ: پھر وہ سیکھتے تھے اُن دونوں سے وہ شے جن کے ذریعے سے آدمی اور اُس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے تھے۔
شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا اور لوگوں کے گھروں میں فساد ڈالنا ، اس طرح کے کام اب بھی بعض عورتیں بڑی سرگرمی سے سر انجام دیتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعویذ، گنڈے ، دھاگے اور نہ جانے کیا کچھ ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔
وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ: اور نہیں تھے وہ ضرر پہنچانے والے اس کے ذریعے کسی کو بھی اللہ کے اِذن کے بغیر ۔
ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بنده مؤمن کو یہ یقین ہو کہ اللہ کے اِذن کے بغیر نہ کوئی چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی نقصان۔ چاہے کوئی دوا ہو وہ بھی باذنِ ربّ کام کرے گی ورنہ نہیں۔ جو کوئی بھی اسبابِ طبیعیہ ہیں ان کے اثرات تبھی ظاہر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا، اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جادو کا اثر بھی اگر ہوگا تو اللہ کے اِذن سے ہو گا۔ چنانچہ بنده مؤمن کو اللہ کے بھروسے پر ڈٹے رہنا چاہیے اور مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ: اور وہ سیکھتے تھے وہ چیزیں جو خود اُن کو بھی ضرر پہنچانے والی تھیں اور انہیں نفع نہیں پہنچاتی تھیں۔
وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰٹہُ مَا لَـہ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ: حالانکہ وہ خوب جان چکے تھے کہ جو بھی اس چیز کا خریدار بنا (یعنی جادو سیکھا) اُس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٓ اَنْفُسَہُمْ: اور بہت ہی ُبری تھی وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو فروخت کر دیا۔
.لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ: کاش انہیں علم ہوتا!