June 23, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 101

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

اورجب ان کے پاس اﷲ کی طرف سے ایک رسول آئے جو اس (تورات) کی تصدیق کر رہے تھے جو ان کے پاس ہے تو اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اﷲ کی کتاب (تورات و انجیل) کو اس طرح پسِ پشت ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے (کہ اس میں نبیِ آخر الزماں ﷺ کے بارے میں کیا ہدایات دی گئی تھیں)

 آیت 101:    وَلَمَّا جَآءَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ:   اور جب آیا اُن کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول (یعنی محمد) 

             مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ:   تصدیق کرنے والا اُس کتاب کی جو ان کے پاس موجود ہے  

             نَــبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوْرِہِمْ:   تو اہل ِکتاب میں سے ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا  

             کَاَنـَّــہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ:   گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں۔  

            علماء یہود نے نبی آخر الزمان کی آمد کی پیشین گوئیاں چھپانے کی خاطر خود تورات کو پس ِپشت ڈال دیا اور بالکل انجانے سے ہو کر رہ گئے۔ ان کے عوام پوچھتے ہوں گے کہ کیا یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم کیا کرتے تھے؟ لیکن یہ جواب میں کہتے کہ یقین سے نہیں کہہ سکتے،  ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو! انہوں نے ایسا رویہ اپنا لیا جیسے انہیں کچھ علم نہیں ہے۔

             اب ایک اور حقیقت نوٹ کیجیے۔ جب کسی مسلمان اُمت میں دین کی اصل حقیقت اور اصل تعلیمات سے بعد ُپیدا ہوتا ہے تو لوگوں کا رجحان جادو،  ٹونے،  ٹوٹکے،  تعویذ اور عملیات وغیرہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ اللہ کی کتاب تو ہدایت کا سرچشمہ بن کر اُتری تھی،  لیکن یہ اُس کو اپنی دُنیوی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔ چنانچہ دشمن کو زیر کرنے اور محبوب کو قدموں میں گرانے کے لیے عملیاتِ قرآنی  کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ دھندے ہمارے ہاں بھی خوب چل رہے ہیں اور شاید سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار یہی ہے،  جس میں نہ تو کوئی محنت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سرمایہ کاری کی۔ بنی اسرائیل کا بھی یہی حال تھا کہ وہ دین کی اصل حقیقت کو چھوڑ کر جادو کے پیچھے چل پڑے تھے۔

UP
X
<>