قرآن کریم > الرّعد >surah 13 ayat 28
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
یہ وہ لوگ ہیں جو اِیمان لائے ہیں ، اور جن کے دل اﷲ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے
آیت ۲۸: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِِ: « وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔»
دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سوره بنی اسرائیل کی آیت ۸۵ میں فرمایا گیا: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ. «اور (اے نبی !) یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امرمیں سے ہے»۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع (source) یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذاتِ باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چنانچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔
اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ: «آگاہ ہو جاؤ! اللہ کے ذکر کے ساتھ ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔»
دنیوی مال ومتاع اور سامانِ عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہو سکتا ہے، یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہو گی تو اللہ کے ذکر سے ہو گی۔