قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 83
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
(چنانچہ یہ بھائی یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے، اور ان سے وہی بات کہی جو بڑے بھائی نے سکھائی تھی) یعقوب نے (یہ سن کر) کہا : ’’ نہیں ، بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔ اب تو میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اﷲ میرے پاس ان سب کو لے آئے۔ بیشک اس کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل
آیت ۸۳: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ: « آپ نے فرمایا: (نہیں !)بلکہ تمہارے لیے تمہارے نفسوں نے ایک کام آسان کر دیا ہے، پس صبر ہی بہتر ہے۔»
حضرت یعقوب نے یہاں پر پھر وہی فقرہ بولا جو حضرت یوسف کی موت کے بارے میں خبر ملنے پر بولا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: بہر حال میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِہِمْ جَمِیْعًا اِنَّہ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ: « ہو سکتا ہے اللہ ان سب کو لے آئے میرے پاس۔ یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔»
حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب دیار غیر میں دوسرے بیٹے کے مصیبت میں گرفتار ہونے کی خبر مل گئی، اور پھر تیسرے بیٹے یہودا کا دکھ اس پر مستزاد جس نے مصر سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، مگر پھر بھی آپ صبر کا دامن تھامے رہے۔ رنج والم کے سیل بے پناہ کا سامنا ہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا ہے اور اُسی کی رحمت سے اُمید!