July 7, 2025

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 84

وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ 

اور (یہ کہہ کر) انہوں نے منہ پھیر لیا، اور کہنے لگے : ’’ ہائے یوسف ! ‘‘ اور ان کی دونوں آنکھیں (روتے روتے) سفید پڑ گئی تھیں ، اور وہ دل ہی دل میں گھٹے جاتے تھے

 آیت ۸۴:  وَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰٓاََسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ:  «اور آپ نے اُن سے رخ پھیر لیا اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف پر! (اور رونا شروع کر دیا)»

             وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ: «اور صدمے سے آپ کی آنکھیں سفیدپڑ گئی تھیں کیونکہ آپ غم کو (اندر ہی اندر ) پیتے رہتے تھے۔»

            حضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے بہت محبت تھی۔ بیٹے کے ہجر اور فراق میں آپ کے دل پر جو گزری تھی خود قرآن کے یہ الفاظ اس پر گواہ ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے جسے یہاں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بچے کا فوت ہو جانا یقینا بہت بڑا صدمہ ہے، لیکن بچے کا گم ہو جانا اس سے کئی گنا بڑا صدمہ ہے۔ فوت ہونے کی صورت میں اپنے سامنے تجہیز و تکفین ہونے سے، اپنے ہاتھوں دفن کرنے اور قبر بنا لینے سے کسی قدر صبر کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس صبر میں ثبات پیدا ہوتا جاتا ہے۔ مگر بچے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی یاد مستقل طور پر انسان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ یہ خیال کسی وقت چین نہیں لینے دیتا کہ نہ معلوم بچہ زندہ ہے یا فوت ہو گیا ہے۔ اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟ اور کس حال میں ہے؟ یہی دکھ تھا جو حضرت یعقوب کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا اور رو رو کر آپ کی آنکھیں سفید ہو چکی تھیں۔ آپ کو وحی کے ذریعے یہ تو بتلا دیا گیا تھا کہ یوسف زندہ ہیں اور آپ سے ضرور ملیں گے، مگر کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ اور کب ملیں گے؟ یہ وہ سوالات تھے جو آپ کو سالہا سال سے مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ اب بن یامین کی جدائی پر یوسف کا غم پوری شدت سے عود کر آیا۔

UP
X
<>