قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 57
وَلأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ
اور آخرت کا جو اَجر ہے، وہ اُن لوگوں کیلئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو اِیمان لاتے اور تقویٰ پر کاربند رہتے ہیں
آیت ۵۷: وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ: « اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بہتر ہے ان کے لیے جو ایمان لائیں اور تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں۔»
اب یہاں سے آگے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو نے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ رکوع کے مضامین اور گزشتہ مضمون کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریباً دس سال کا بُعد ہے۔ اب بات اس زمانے سے شروع ہو رہی ہے جب مصر میں بہتر فصلوں کے سات سالہ دور کے بعد قحط پڑ چکا تھا۔ یہاں پر جو تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کی تعبیر کے عین مطابق سات سال تک مصر میں خوشحالی کا دور دورہ رہا اور فصلوں کی پیداوار معمول سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ اس دوران حضرت یوسف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اناج کے بڑے بڑے ذخائر جمع کر لیے تھے۔ چنانچہ جب یہ پورا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو مصر کی حکومت کے پاس نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اناج وافر مقدار میں موجود تھا۔ چنانچہ حضرت یوسف نے اس غیر معمولی صورتِ حال کے پیش نظر «راشن بندی» کا ایک خاص نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ایک خاندان کو ایک سال کے لیے صرف اس قدر غلہ دیا جاتا تھا جس قدر ایک اونٹ اٹھا سکتا تھا اور اس کی قیمت اتنی وصول کی جاتی تھی جو وہ آسانی سے ادا کر سکیں۔ ان حالات میں فلسطین میں بھی قحط کا سماں تھا اور وہاں سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں مصر کی طرف غلہ لینے کے لیے آتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے میں حضرت یوسف کے دس بھائی بھی غلہ لینے مصر پہنچے، جبکہ آپ کا ماں جایا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب اپنے اس بیٹے کو کسی طرح بھی ان کے ساتھ کہیں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔