July 14, 2025

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 53

وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رَبّ رحم فرما دے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا۔) بیشک میرا رَبّ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘

 آیت ۵۳:  وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ:  « اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتی، یقینا (انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے»

             اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:« سوائے اُس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والاہے۔»

            اگر گزشتہ آیت میں نقل ہونے والے بیان کو عزیز مصر کی بیوی کا بیان مانا جائے تو اس صورت میں  آیت زیر نظر بھی اسی کے کلام کا تسلسل قرار پائے گی اور اس کا ترجمہ وہی ہو گا جو اوپر کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل اس نظریے کے مطابق ہے جس کے تحت ہمارے بہت سے مفسرین اور قصہ گو حضرات نے مائی زلیخا کو ولی اللہ کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اور کچھ بعید بھی نہیں کہ اس کا عشق مجازی وقت کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی میں تبدیل ہو گیا ہو اور وہ حقیقتاً ہدایت پر آ گئی ہو۔ بہر حال جو لوگ اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان آیات کا ترجمہ اسی طرح کرتے ہیں، کیونکہ اس نے اعترافِ جرم کر کے توبہ کرلی تھی اور اس لحاظ سے مذکورہ مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اعترافِ گناہ سے لے کر (آیت: ۵۳) کے اختتام تک اسی کا بیان ہے۔

            اس سلسلے میں دوسرا موقف (جو دورِ حاضر کے زیادہ تر مفسرین نے اختیار کیا ہے) یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی کا بیان اس  آیت پر ختم ہو گیا ہے: اَنَا رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ وَاِنَّہ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ. اور اس کے بعد حضرت یوسف کا بیان نقل ہوا ہے۔ اس صورت میں  آیت: ۵۲ اور ۵۳ کا مفہوم یوں ہو گا کہ جب بادشاہ کی تفتیشی کارروائی اور عزیز مصر کی بیوی کے برملا اعترافِ جرم کے بارے میں حضرت یوسف کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سب کچھ سے میرا یہ مقصود نہیں تھا کہ کسی کی عزت و ناموس کا پردہ چاک ہو، بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ عزیز مصر یہ جان لے کہ اگر اس نے مجھے اپنے گھر میں عزت و اکرام سے رکھا تھا اور مجھ پر اعتماد کیا تھا تو میں نے بھی اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی، اور میرا ایمان ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کوراہ یاب نہیں کرتا۔ باقی میں خود کو بہت پارسا نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ نفس ِانسانی تو انسان کو برائی پر ابھارتا ہی ہے اور اس کے حملے سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب اپنی خصوصی نظر ِرحمت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری حفاظت کا بھی اگر خصوصی انتظام نہ فرمایا جاتا تو مجھ سے بھی غلطی سرزد ہو سکتی تھی۔ مگر چونکہ میرا رب بخشنے والا بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس نے مجھ پر اپنی خصوصی رحمت فرمائی۔

UP
X
<>