قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 50
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا کہ : ’’ اُس کو (یعنی یوسف کو) میرے پاس لے کر آؤ۔ ‘‘ چنانچہ جب اُن کے پاس ایلچی پہنچا تو یوسف نے کہا : ’’ اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ، اور اُن سے پوچھو کہ اُن عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ میرا پروردگار ان عورتوں کے مکر سے خوب واقف ہے۔ ‘‘
آیت ۵۰: وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہ: «(یہ سن کر) بادشاہ نے کہا کہ اُس شخص کو میرے پاس لے آؤ!»
بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقینا بہت متاثر ہوا ہو گا اور اس نے سوچا ہو گا کہ ایسے ذہین، فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔
فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ: «پھر جب آیا آپ کے پاس ایلچی، تو آپ نے فرمایا کہ تم واپس چلے جاؤ اپنے آقا کے پاس»
بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بے گناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ:
فَسْئََلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ: «اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟»
اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ: « یقینا میرا رب ان کی چالوں سے خوب واقف ہے۔»
بادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کر لیا۔