3 Dhul Hijja ,1446 AHJune 1, 2025

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 100

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بَي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاء بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاء إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ 

اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا، اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر پڑے، اور یوسف نے کہا : ’’ اباجان ! یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا، اور اس نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا کہ مجھے قید خانے سے نکال دیا، اور آپ لوگوں کو دیہات سے یہاں لے آیا، حالانکہ اس سے پہلے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے، اس کیلئے بڑی لطیف تدبیریں کرتا ہے۔ بیشک وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل

 آیت ۱۰۰:  وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہ سُجَّدًا: « اور آپ نے اپنے والدین کو اونچے تخت پر بٹھایا، اور وہ سب کے سب یوسف کے سامنے سجدے میں گر گئے۔»

            یہ سجده تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت ِمحمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہو گئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چنانچہ یہ سجده تعظیمی اب حرامِ مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات وواقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔

             وَقَالَ یٰٓــاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ: « اور یوسف نے کہا: ابا جان! یہ ہے تعبیر اُس خواب کی جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا»

            حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر (آیت: ۴) میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔

             قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا: « میرے رب نے اس کو سچا کر دکھایا۔»

             وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ:  « اور اُس نے مجھ پر بہت احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکلوایا»

             وَجَآءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ:  « اور آپ لوگوں کو (یہاں ) لے آیا صحرا سے»

            آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا، جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔

             مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ: « اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دشمنی ڈال دی تھی۔»

             اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ اِنَّہ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ : « یقینا میرا ربّ غیر محسوس طور پر تدبیر کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ یقینا وہی ہے ہر شے کا علم رکھنے والا، حکمت والا۔»

            اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کر تے ہیں:

X
<>