قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 89
وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ
اور اے میری قوم ! میرے ساتھ ضد کا جو معاملہ تم کر رہے ہو، وہ کہیں تمہیں اس انجام تک نہ پہنچا دے کہ تم پر بھی ویسی ہی مصیبت نازل ہو جیسی نوح کی قوم پر یا ہود کی قو م پر یا صالح کی قوم پر نازل ہو چکی ہے۔ اور لوط کی قوم تو تم سے کچھ دُوربھی نہیں ہے
آیت ۸۹: وَیٰــقَوْمِ لاَ یَجْرِمَنَّـکُمْ شِقَاقِیْٓ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ ہُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ: «اور اے میری قوم کے لوگو! (دیکھو) میری دشمنی تمہیں اس انجام تک نہ لے جائے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے جیسا کہ آیا تھا قومِ نوح ، قومِ ہود یا قومِ صالح پر۔ »
وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ: « اور قومِ لوط تو تم سے زیادہ دُور بھی نہیں ہے۔ »
حضرت شعیب سے پہلے ان چار قوموں پر عذابِ استیصال آ چکا تھا۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ قومِ لوط تم سے «بعید» نہیں ہے، یہ زمانی اور مکانی دونوں اعتبار سے ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل سے متصل علاقے میں قومِ مدین آباد تھی۔ اس علاقے سے ذرا ہٹ کر مشرق کی جانب بحیره مردار ہے جس کے ساحل پر عامورہ اور سدوم کی وہ بستیاں تھیں جن میں حضرت لوط مبعوث ہوئے تھے۔ زمانی اعتبار سے بھی ان دونوں اقوام میں ہزاروں سال کا نہیں بلکہ صرف چند سو سال کا بُعد تھا۔ بہر حال مجھے ان مفسرین سے اختلاف ہے جو حضرت شعیب کو حضرت موسیٰ کے ہم عصر سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں مجھے ان علماء کی رائے سے اتفاق ہے جن کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ مدین میں جس شخص کے مہمان بنے تھے اور جن کی بیٹی کے ساتھ بعد میں آپ نے نکاح کیا تھا وہ مدین کے اُن لوگوں کی نسل سے کوئی نیک بزرگ تھے جو حضرت شعیب کے ساتھ عذابِ استیصال سے بچ گئے تھے۔
دوسرا اہم نکتہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ بعض اوقات کسی داعی کے ساتھ ذاتی عناد اور دشمنی کی بنیاد پر کوئی شخص یا کوئی گروہ اس کی اصولی دعوت کو بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ یہ انسانی رویے کا ایک بہت خطرناک پہلو ہے، کیونکہ اس میں اس داعی کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر صرف ذاتی تعصب کی بنیاد پر اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے خود کو برباد کر لیتے ہیں۔