July 18, 2025

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 52

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ 

کہہ دو کہ :’’ تم ہمارے لئے جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ (آخر کار) دو بھلائیوں میں سے ایک نہ ایک بھلائی ہمیں ملے۔ اور ہمیں تمہارے بارے میں انتظار اس کا ہے کہ اﷲ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سزا دے۔ بس اب انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں ۔ ‘‘

 آیت ۵۲: قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ: ‘‘(ان سے) کہیے کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کر سکتے ہو سوائے دو نہایت عمدہ چیزوں میں سے کسی ایک کے!‘‘

            الْحُسْنَـیَیْنِ‘ الحُسْنٰی کی تثنیہ ہے‘ جو اَحْسَن کی مؤنث ہے۔ یہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ چنانچہ الْحُسْنَـیَیْنِ کے معنی ہیں دو نہایت احسن صورتیں۔ جب کوئی بندۂ مؤمن اللہ کے راستے میں کسی مہم پر نکلتا ہے تو اس کے لیے تو دونوں امکانی صورتیں ہی احسن ہیں‘ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں تو وہ بھی احسن :

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن

 نہ مالِ غنیمت‘     نہ کشور کشائی!

 (اقبال)

اور اگر کامیاب ہو کر آ جائیں تو بھی احسن۔ دونوں صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ تیسری کوئی صورت تو ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ایک بندۂ مؤمن کو خوف کاہے کا؟

جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر

جب  وقت  شہادت آتا ہے  دل سینوں  میں رقصاں ہوتے ہیں!

            وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہ اَوْ بِاَیْدِیْنَا: ‘‘اور (اے منافقو!) ہم منتظر ہیں تمہارے بارے میں کہ اللہ تمہیں پہنچائے کوئی عذاب اپنے پاس سے یا ہمارے ہاتھوں‘‘

            ہمیں بھی تمہارے بارے میں انتظار ہے کہ تمہارے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ تم پر خود کوئی عذاب نازل کر دے یا عین ممکن ہے کہ کبھی ہمیں اجازت دے دی جائے اور ہم تمہاری گردنیں اڑائیں۔

            فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ: ‘‘تو تم بھی انتظار کرو‘ ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

UP
X
<>