قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 122
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور مسلمانوں کیلئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کیلئے) نکل کھڑے ہوں ، لہٰذا ایسا کیوں نہ ہو کہ اُن کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کیلئے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں ) وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کیلئے محنت کریں ، اور جب اِن کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں ) اِن کے پاس واپس آئیں تو یہ اُن کو متنبہ کریں ، تاکہ وہ (گناہوں سے) بچ کر رہیں
آیت ۱۲۲: وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً: ‘‘اور اہل ایمان کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ سب کے سب نکل آئیں۔‘‘
مدینہ کے مضافات میں بسنے والے بدو قبائل کا تذکرہ پچھلی آیات میں ہوچکا ہے: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا … یہ بدو لوگ کفر اور نفاق میں بہت زیادہ سخت تھے اور اس کا سبب علم دین سے ان کی ناواقفیت تھی۔ اس لیے کہ انہیں حضور کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ اب اس کے لیے یہ تو ممکن نہیں تھا کہ سارے بادیہ نشین لوگ اپنی اپنی آبادیاں چھوڑتے اور مدینہ میں آ کر آباد ہو جاتے۔ چنانچہ یہاں اس مسئلہ کا حل بتایا جا رہا ہے۔
فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ: ‘‘تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ نکلتا ان کی ہر جماعت میں سے ایک گروہ تا کہ وہ دین کا فہم حاصل کر تے‘‘
یہاں اس مشکل کا حل یہ بتایا گیا کہ ہر علاقے اور ہر قبیلے سے چند لوگ آئیں اور صحبت نبوی سے فیض یاب ہوں۔
وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ: ‘‘اوروہ اپنے لوگوں کو خبردار کرتے جب ان کی طرف واپس لوٹتے تاکہ وہ بھی نافرمانی سے بچتے۔‘‘
یہاں اس سلسلے میں باقاعدہ ایک نظام وضع کرنے کی ہدایت کر دی گئی کہ مختلف علاقوں سے قبائل کے نمائندے آئیں‘ مدینہ میں قیام کریں‘ رسول اللہ کی صحبت میں رہیں‘ اکابر صحابہ کی تربیت سے استفادہ کریں‘ احکام ِ دین کو سمجھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر اس تعلیم کو عام کریں۔