قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 123
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے مجرموں کے سرغنوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اُس (بستی) میں (مسلمانوں کے خلاف) سازشیں کیا کریں ۔ اور وہ جو سازشیں کرتے ہیں ، (در حقیقت) وہ کسی اور کے نہیں ، بلکہ خود اُن کے اپنے خلاف پڑتی ہیں ، جبکہ اُن کو اس کا احساس نہیں ہوتا
آیت 123: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا: ’’اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم کھڑے کیے تا کہ وہ اس میں خوب سازشیں کریں ۔،،
یہ وہی فلسفہ ہے جو قبل ازیں آیت: 112 میں بیان ہوا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ شیاطینِ انس و جن کو ہم خود ہی انبیاء کی دشمنی کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ یہاں پر اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی کہ ہم ہر بستی کے اندر وہاں کے سرداروں اور بڑے بڑے چودھریوں کو ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ حق کے مقابلے میں کھڑے ہوں، لوگوں کو سیدھے راستے سے روکیں، اپنی چالبازیوں اور مکاریوں سے حق پرستوں کو آزمائش میں ڈالیں تا کہ اس عمل سے صاحب صلاحیت لوگوں کی صلاحیتیں مزید اُجاگر ہوں، ان کے جوہر کھلیں اور ان کی غیرت ایمانی کو جلا ملے۔
وَمَا یَمْکُرُوْنَ اِلاَّ بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ: ’’حالانکہ وہ مکر نہیں کرتے مگر اپنی جانوں کے ساتھ، لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔،،
انہیں یہ شعور ہی نہیں کہ ان کی چالبازیوں کا سارا وبال تو بآلاخر خود انہی پر پڑے گا۔ جیسے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کے ساتھ ابو جہل نے جو کچھ کیا تھا اس کا وبال جب اس کے سامنے آئے گا تب اُس کی آنکھ کھلے گی اور اُس وقت تو یہ عالم ہو گا کہ ع:
’’جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا!،،