قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 64
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاء وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اوریہودی کہتے ہیں کہ : ’’ اﷲ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں ، اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اﷲ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں ، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور (اے پیغمبر !) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کیلئے عداوت اور بغض پیدا کر دیا ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں ، اﷲ اس کو بجھا دیتا ہے، اور یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں ، جبکہ اﷲ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا
آیت 64: وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَـۃٌ: ،،اور یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا۔ ،،
ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رحمت جو ہمارے لیے تھی وہ بند ہو گئی ہے، نبوت کی رحمت ہمارے لیے مختص تھی اور اب یہ دست ِرحمت ہماری طرف سے بند ہو گیا ہے۔ یا اس کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے جو منافقین کہا کرتے تھے کہ اللہ ہم سے قرضِ حسنہ مانگتا ہے تو گویا اللہ فقیر ہو گیا ہے (نعوذ باللہ) اور ہم اغنیاء ہیں ۔ جواب میں فرمایا گیا:
غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ: ،،ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں،، یا ،،بندھ جائیں ان کے ہاتھ،،
وَلُعِنُـوْا بِمَا قَالُــوْا : ،،اور ان پر لعنت ہے اس کے سبب جو انہوں نے کہا،،
بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ: ،،بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ تو کھلے ہوئے ہیں ،،
یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآءُ: ،،وہ جیسے چاہے خرچ کرتا ہے۔ ،،
وَلَـیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّــآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا: ،،اور یقینا اضافہ کرے گا ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر میں جو کچھ (اے نبی) نازل کیا گیا ہے آپ پر آپ کے ربّ کی طرف سے۔ ،،
یعنی ضد میں آ کر انہوں نے حق و صداقت پر مبنی اس کلام کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسے جیسے جو جو احسانات بھی آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر ہو رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو غنیمتیں دے رہا ہے، دین کو رفتہ رفتہ جو غلبہ حاصل ہو رہا ہے، اس کے حسد کے نتیجے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد تو خاص طور پر عرب کے اندر بہت تیزی کے ساتھ صورتحال بدلنی شروع ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہ لوگ سمجھ جاتے کہ واقعی یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اور یک سو ہو کر اس کا ساتھ دیتے، ان کے اندر کی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔
وَاَلْـقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآء اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ: ،،اور ہم نے ان کے مابین قیامت تک کے لیے دشمنی اور بغض ڈال دیا ہے۔ ،،
کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ: ،،جب کبھی یہ آگ بھڑکاتے ہیں جنگ کے لیے اللہ اُس کو بجھا دیتا ہے،،
جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہودی اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ خاص طور پر غزوہ احزاب تو ان ہی کی سازشوں کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ مدینے کے یہودی قبائل ِعرب کے پاس جا جا کر، اِدھر اُدھر وفد بھیج کر لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ آؤ تم باہر سے حملہ کرو، ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ ان کی انہی سازشوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔
وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا: ،،اور( پھر بھی) یہ زمین میں فساد مچانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں ۔ ،،
وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ: ،،اور اللہ ایسے ُمفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ ،،