April 30, 2025

قرآن کریم > الحُـجُـرات >sorah 49 ayat 9

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر اُن میں سے ایک گروہ دُوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اُس گروہ سے لڑو جو زیادتی کررہا ہو، یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو، اور (ہر معاملے میں ) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک اﷲ انصاف سے کام لیا کرو، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

آیت ۹  وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا:  ’’اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔‘‘

            اہل ایمان بھی تو آخر انسان ہیں۔ ان کے درمیان بھی اختلافات ہو سکتے ہیں اور کسی خاص صورت حال میں اختلافات بڑھ کر جنگ اور قتال پر بھی منتج ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت علی اور حضرت عائشہ  کے درمیان یا حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان اختلافات جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ چنانچہ اگر کہیں ایسی صورت حال پیدا ہو تو امت مسلمہ کے تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحارب فریقین کے درمیان صلح کروائیں۔ اگر مسلمانوں کے دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو باقی مسلمان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے‘ کیونکہ اگر ان کے درمیان صلح نہ کرائی گئی تو مسلمانوں کی جمعیت اور طاقت میں رخنہ پڑے گا جس کی وجہ سے بالآخر مسلمانوں کی مجموعی طاقت اور غلبۂ دین کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ اس لحاظ سے کسی بھی ملک یا خطہ کے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرانا باقی مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔

             فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ:  ’’پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کر رہا ہو تو تم جنگ کرو اس کے ساتھ جو زیادتی کر رہا ہے‘‘

             اگر فریقین میں صلح کرا دی گئی‘ لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے ایک فریق اس صلح کی پابندی نہیں کر رہا اور دوسرے فریق پر زیادتی کیے جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری اُمت مسلمہ پر زیادتی کر رہا ہے اور پوری ملت اسلامیہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں پوری ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بھر پور طاقت استعمال کرے۔

             حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِِ:  ’’یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف۔‘‘

             فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ:  ’’پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو عدل کے ساتھ اور دیکھو! انصاف کرنا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘

            کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف طاقت کے استعمال کے دوران تم لوگ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھو۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ طاقت کا یہ استعمال صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی حد تک ہو۔ ظاہر ہے ایک زیادتی کو روکنے کے لیے مزید کسی زیادتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

UP
X
<>