May 3, 2025

قرآن کریم > الأحقاف >sorah 46 ayat 28

فَلَوْلا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ وَذَلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

پھر انہوں نے اﷲ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے جن چیزوں کو اﷲ کے سوا معبود بنا رکھا تھا، اُنہوں نے ان کی کیوں مدد نہ کر لی؟ اس کے بجائے وہ سب ان کیلئے بے نشان ہوگئے۔ یہ تو ان کا سراسر جھوٹ تھا، اور بہتان تھا جو انہوں نے تراش رکھا تھا

آیت ۲۸  فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً: ’’تو کیوں نہ مدد کی ان کی اُن ہستیوں نے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا تھا تقرب (الی اللہ) کا ذریعہ سمجھتے ہوئے!‘‘

          ان کا خیال تھا کہ ان کے معبود انہیں اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گے اور ہر مشکل میں ان کی مدد کریں گے۔

          بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ: ’’بلکہ وہ سب تو ان سے گم ہو گئے‘‘

          جب ان پر عذاب آیا تو ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا اور انہیں یوں لگا جیسے کہ حقیقت میں ان کے معبودوں کا کوئی وجود تھا ہی نہیں‘ بس بقول میر دردؔ: ع ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سنا افسانہ تھا!‘‘

          وَذٰلِکَ اِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ: ’’اور یہ تھا ان کا جھوٹ اور جو کچھ وہ افترا کر رہے تھے۔‘‘

          آئندہ آیات میں ان جنات  کا ذکر ہو ا ہے جو رسول اللہ سے قرآن سن کر ایمان لے آئے اور پھر اپنی قوم کی طرف مبلغ بن کر لوٹے۔ یہ واقعہ حضور کے طائف سے واپسی کے سفر کے دوران پیش آیا۔ وہ ایام حضور کے لیے یقینا بہت سخت تھے۔ ایک طرف آپؐ اہل طائف کے رویے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے تو دوسری طرف مکہ واپس جانے کے لیے بھی حالات سازگار نہیں تھے۔ اس صورت حال میں آپؐ نے چند دن وادی ٔنخلہ میں قیام فرمایا۔ وہاں ایک دن آپؐ فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ ِجنوں ّکی ایک جماعت کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نماز میں حضور امام تھے اور آپؐ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ مقتدی تھے۔ وادی کی کھلی فضا ‘ فجر کا وقت اور اللہ کے رسول کی زبانِ اطہر سے ’’قرآن الفجر‘‘ (بنی اسرائیل: ۷۸) کی طویل قراءت! قریب سے گزرتے ہوئے جنات ٹھٹک کر رہ گئے۔ آپؐ قرآن پڑھتے رہے اور وہ سنتے رہے۔ قراء ت ختم ہوئی تو ان کی دنیا بدل چکی تھی ‘وہ سب کے سب ایمان لے آئے‘ بلکہ واپس  جا کر انہوں نے اپنی قوم میں فوراً تبلیغ بھی شروع کر دی۔ جنات کا یہ واقعہ ہمارے لیے اس لحاظ سے لائق عبرت ہے کہ جنات نے ایک ہی مرتبہ قرآن سنا اور وہ نہ صرف ایمان لے آئے بلکہ قرآن کے داعی اور مبلغ بھی بن گئے‘ لیکن ہم بار بار قرآن سنتے ہیں اور ہر بار گویا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ نہ تو قرآن ہمارے دلوں میں اترتا ہے اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس سے کوئی تبدیلی آتی ہے۔

UP
X
<>