June 7, 2025

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 35

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

اور یہ بات صرف اُنہی کو عطا ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں ، اور یہ بات اُسی کو عطا ہوتی ہے جو بڑے نصیبے والا ہو

آیت ۳۵:  وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا: ’’اور یہ مقام نہیں حاصل ہو سکتا مگر ان ہی لوگوں کو جو بہت صبر کرتے ہوں۔‘‘

        اس خاص مقام تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جن میں صبر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور وہ اپنی عملی زندگی میں بھی ہمیشہ صبر کی روش پر کاربند ہوں۔

         وَمَا یُلَقّٰہَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ : ’’اور یہ نہیں دیا جاتا مگر ان ہی کو جوبڑے نصیب والے ہوں۔‘‘

        یہ حَظٍّ عَظِیْمٍ کیا ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ ہر انسان کے لیے اس کا صحیح ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ ہم سورۃ القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بھی پڑھ آئے ہیں۔ قارون کے ٹھاٹھ باٹھ اور خدم و حشم سے متاثر ہو کر دنیا دار لوگوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا تھا (اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ) (القصص) کہ یقینا یہ شخص بڑا صاحب نصیب ہے۔ لیکن پھر جب وہ اپنے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو ان ہی لوگوں نے اس پر شکر و اطمینان کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی مہربانی کی کہ انہیں قارون جیسا مال و منال نہ دیا، ورنہ انہیں بھی اسی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا۔ چنانچہ ایک بنده مؤمن کے لیے اصل کامیابی، حقیقی فوزو فلاح اور ’’حظ ِعظیم‘‘ اسی عمل اور اسی کردار میں ہے جس کی نشاندہی اس آیت میں کی گئی ہے۔ 

UP
X
<>