قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 25
وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاء فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور ہم نے (دُنیا میں ) ان پر کچھ ساتھی مسلط کر دیئے تھے جنہوں نے ان کے آگے پیچھے کے سارے کاموں کو خوشنما بنا دیا تھا، چنانچہ جو دوسرے جنات اور انسان ان سے پہلے گذر چکے ہیں ، اُن کے ساتھ مل کر (عذاب کی) بات ان پر بھی سچی ہوئی۔ یقینا وہ سب خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہیں
آیت ۲۵: وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ: ’’اور ہم نے ان کے لیے ایسے ساتھی مقرر کر دیے جنہوں نے ان کو مزین ّکر کے دکھلائی ہر وہ چیز جو ان کے سامنے تھی اور جوان کے پیچھے تھی‘‘
جیسے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ایسے ہی ہر انسان کے ساتھ شیاطین ِجن بھی لگا دیے گئے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ فرشتوں کی موجودگی کا ذکر قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۶۱ میں وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً: کے الفاظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے انسانوں کی حفاظت کا انتظام فرماتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے (کراماً کاتبین) اس کے اعمال کاریکارڈ رکھنے کے لیے بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ ان فرشتوں کا ذکر سورۃ الانفطار میں اس طرح آیا ہے (وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ) اسی طرح انسانوں کے ساتھ شیاطین ِجن بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودh روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک ساتھی جنات (شیاطین) میں سے اور ایک ساتھی ملائکہ میں سے مقر ر نہ کر دیا گیا ہو‘‘۔ اس پر صحابہ کرامؓ نے دریافت فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا: ( (وَاِیَّایَ، لٰـکِنْ اَعَانَنِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ) ) ’’ ہاں ! میرے ساتھ بھی (ایک شیطان ہے) مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر نصرت عطا فرمائی ہے اور میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے‘‘۔ یعنی میں نے اسے اپنا تابع بنا لیا ہے اور اب وہ مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ بہر حال اس آیت میں غلط کار انسانوں کے ان شیطان ساتھیوں کا ذکر ہے جو دنیا میں ان کے غلط عقائد اور برے اعمال کو خوش نما بنا کر انہیں دکھاتے رہتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ گناہوں کی لذت اور دنیا کی رنگینیوں میں ہی گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ: ’’اور ان پر سچ ثابت ہوئی (اللہ کے عذاب کی) بات، (اور وہ شامل ہو گئے) ان امتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں جنوں اور انسانوں کی۔‘‘
ان پر بھی بالآخر وہی بات پوری ہو کر رہی جو جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں پر پوری ہوئی تھی جو ان سے پہلے تھے۔ یعنی وہ اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائے۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ: ’’یقینا وہ خسارہ پانے والے لوگ تھے۔‘‘