قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 92
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةً فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کوقتل کرے، اِلّا یہ کہ غلطی سے ایسا ہوجائے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور دیت (یعنی خون بہا) مقتول کے وارثوں کو پہنچائے، اِلّا یہ کہ وہ معاف کردیں ۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہے، مگر وہ خود مسلمان ہو، تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے، (خوں بہا دینا واجب نہیں) ۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جو (مسلمان نہیں ، مگر) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے، تو بھی یہ فرض ہے کہ خوں بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے، اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے۔ ہاں اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو ا س پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے جو اﷲ نے مقرر کیا ہے، اور اﷲ علیم و حکیم ہے
اب ایک اور معاشرتی مسئلہ آ رہا ہے۔ اُس وقت در اصل پورے عرب کے اندر ایک بھٹی دہک رہی تھی‘ جگہ جگہ جنگیں لڑی جا رہی تھیں‘ میدان لگ رہے تھے‘ معرکے ہو رہے تھے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں تو صرف بڑے بڑے معرکوں اور غزوات کا ذکر ہوا ہے مگر حقیقت میں اُس وقت پورا معاشرہ حالت ِجنگ میں تھا۔ ایک چومکھی جنگ تھی جو مسلسل جاری تھی۔ ان آیات سے اُس وقت کے عرب معاشرے کی اصل صورتِ حال اور اُس قبائلی معاشرے کے مسائل کی بہت کچھ عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں فرض کریں‘ ایک شخص نے کسی دوسرے کو قتل کر دیا۔ قاتل اور مقتول دونوں مسلمان ہیں۔ قاتل کہتا ہے کہ میں نے عمداً ایسا نہیں کیا‘ میں نے تو شکار کی غرض سے تیر چلایا تھا مگر اتفاق سے نشانہ چوک گیا اور اس کو جا لگا۔ تو اب یہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا دو طرح کا ہو سکتا ہے‘ قتل ِعمد یا قتل ِخطا۔ یہاں اس بارے میں وضاحت فرمائی گئی ہے۔ ُ َ ّ
آیت92: وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلاَّ خَطَأ : ’’ کسی مؤمن کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ ایک مؤمن کو قتل کرے مگر خطا کے طور پر۔‘‘
خطا کے طور پر قتل کیا ہے؟ نشانہ چوک گیا اورکسی کو جا لگا یاسڑک پرحادثہ ہو گیا‘کوئی شخص گاڑی کے نیچے آ کر مر گیا۔ آپ تواُ سے مارنا نہیں چاہتے تھے‘ بس یہ سب کچھ آپ سے اتفاقی طور پر ہو گیا۔چنانچہ سعودی عرب میں حادثات کے ذریعے ہونے و الی اموات کے فیصلے اسی قانونِ قتل ِخطا کے تحت ہوتے ہیں۔ وہ قانون کیا ہے:
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ :’’ اور جو شخص کسی مؤمن کو قتل کر دے غلطی سے تو(اس کے ذمہ ہے) ایک مسلمان غلام کی گردن کا آزاد کرانا‘‘
وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا: ’’اور خون بہا مقتول کے گھر والوں کو ادا کرنا‘ اِلاّ یہ کہ وہ معاف کر دیں۔‘‘
یعنی قتل ِخطا کے بدلے میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ دیت یعنی خون بہا ادا کیا جائے گا‘یہ مقتول کے ورثاء کا حق ہے ۔اور گناہ کے کفّارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہو گا‘ یہ اللہ کا حق ہے۔
فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّــکُم وَہُوَ مُؤْمِنٌ: ’’اور اگر وہ (مقتول) کسی ایسے قبیلے سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہے اور تھا وہ مسلمان‘‘
فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ: ’’تو پھر صرف ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہو گا۔‘‘
کیونکہ کافر قبیلے کا آدمی تھا اور اگر اس کی دیت دی جائے گی تو وہ اس کے گھر والوں کوملے گی جو کہ کافر ہیں‘ لہٰذا یہاں دِیت معاف ہو گئی‘ لیکن ایک غلام کو آزاد کرنا جو اللہ کا حق تھا‘ وہ برقرار رہے گا۔
وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ: ’’اور اگر وہ (مقتول ) ہو کسی ایسی قوم سے جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے‘ ‘
فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَہْلِہ وَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ: ’’تو پھر دیت بھی دینا ہوگی اس کے گھر والوں کواور ایک مؤمن غلام بھی آزاد کرنا ہو گا۔‘‘
گویا یہ دو حق الگ الگ ہیں۔ ایک تو دِیت ہے جو مقتول کے ورثاء کا حق ہے‘ اس میں یہاں رعایت نہیں ہو سکتی‘ البتہ جوحق اللہ کا اپنا ہے یعنی گناہ کے اثرات کوزائل کرنے کے لیے ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا‘ تو اس میں اللہ نے نرمی کر دی‘ جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا:’’پھر جو یہ (غلام آزاد ) نہ کر سکے تو روزے رکھے دو مہینوں کے متواتر۔ یہ اللہ کی طرف سے توبہ (قبول کرنے کا ذریعہ) ہے‘ اور یقینا اللہ تو علیم و حکیم ہے۔‘‘