قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 63
أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلاً بَلِيغًا
یہ وہ ہیں کہ اﷲ ان کے دلوں کی ساری باتیں خوب جانتا ہے۔ لہٰذا تم انہیں نظر انداز کر دو، انہیں نصیحت کرو، اور ان سے خود ان کے بارے میں ایسی بات کہتے رہو جو دل میں اتر جانے والی ہو
آیت 63: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘
فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ: ’’تو (اے نبی!) آپ ان سے چشم پوشی کیجیے‘‘
وَعِظْہُمْ: ’’اور ان کو ذرا نصیحت کیجیے‘‘
وَقُلْ لَّـہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاًم بَلِیْغًا: ’’اور ان سے خود ان کے بارے میں ایسی بات کہیے جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔‘‘
یہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ نے حضرت عمر کو َبری قرار دیا کہ اللہ کی طرف سے ان کی براءت آ گئی ہے‘ اور اسی دن سے ان کا لقب ’’فاروق‘‘ قرار پایا‘ یعنی حق و باطل میں فرق کر دینے والا۔
اب ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ اس سورہ مبارکہ میں منافقت جو زیر بحث آئی ہے وہ تین عنوانات کے تحت ہے۔ منافقوں پر تین چیزیں بہت بھاری تھیں‘ جن میں سے اوّلین رسول اللہ کی اطاعت تھی۔ اور یہ بڑی نفسیاتی بات ہے ۔ ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی اطاعت بڑا مشکل کام ہے۔ ہم جو رسول کی اطاعت کرتے ہیں تو رسول اللہ ہمارے لیے ایک ادارے (institution) کی حیثیت رکھتے ہیں‘ رسول شخصاً ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں۔ جبکہ ان کے سامنے رسول اللہ شخصاً موجود تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں‘ دو پاؤں ہیں‘ دو آنکھیں ہیں‘ لہٰذا بظاہر اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت ان پر بہت شاق تھی۔ جیسا کہ جماعتوں میں ہوتا ہے کہ امیر کی اطاعت بہت شاق گزرتی ہے‘ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ امیر کی رائے پر چلنے کے لیے اپنی رائے کو پیچھے ڈالنا پڑتا ہے۔ جو صادق الایمان مسلمان تھے انہیں تو یہ یقین تھا کہ یہ محمد بن عبد اللہ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں‘ حقیقت میں محمد رٌسول اللہ ہیں اور ہم ان کی اسی حیثیت میں ان پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن جن کے دلوں میں یہ یقین نہیں تھا یا کمزور تھا ان کے لیے حضور کی شخصی اطاعت بڑی بھاری اور بڑی کٹھن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر وہ کہتے تھے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنے پاس سے کہہ رہے ہیں۔ کیوں نہیں کوئی سورت نازل ہو جاتی؟ کیوں نہیں کوئی آیت نازل ہو جاتی؟ اور سورہ محمد اسی انداز میں نازل ہوئی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد نے خود اپنی طرف سے اقدام کر دیا ہے۔ اس پر اللہ نے کہا کہ لو پھر ہم قتال کی آیات نازل کر دیتے ہیں۔ دوسری چیز جو اُن پر کٹھن تھی وہ ہے قتال‘ یعنی اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ع مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز! تیسری کٹھن چیز ہجرت تھی۔ اس کا اطلاق منافقین ِمدینہ پر نہیں ہوتا تھا بلکہ مکہ اور ارد گرد کے جو منافق تھے ان پر ہوتا تھا۔ ان کا ذکر بھی آگے آئے گا۔ ظاہر ہے گھر بار اور خاندان والوں کو چھوڑ کر نکل جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔