قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 165
رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
یہ سب رسول وہ تھے جو (ثواب کی) خوشخبری سنانے اور (دوزخ سے) ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے، تاکہ ان رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کے پاس اﷲ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اﷲ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل
آیت 165: رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ: ’’یہ رسول (بھیجے گئے) بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر‘‘
لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ: ’’تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت ّ( دلیل) رسولوں کے آنے کے بعد۔‘‘
یہاں پر ایک طرف للِنَّاسِ کا «ل» نو ٹ کیجئے اور دوسری طرف عَلَی اللّٰہِ کا عَلٰی۔ یہ دونوں حروف متضاد معانی پیدا کر رہے ہیں۔ لِلنَّاسِ کے معنی ہیں لوگوں کے حق میں حجت‘ جبکہ عَلَی اللّٰہِ کے معنی ہیں اللہ کے خلاف حجت۔
وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا: ’’ اور اللہ زبردست ہے‘ حکمت والا ہے۔‘‘
اب آپ آخرت کے احتساب کے فلسفے کو سمجھئے۔ قیامت کے دن ہر کسی کا امتحان ہو گا اور امتحان سے پھر نتائج نکلیں گے‘ کوئی پاس ہو گا اور کوئی فیل۔ لیکن امتحان سے پہلے کچھ پڑھایا جانا بھی ضروری ہے‘ کسی کو جانچنے سے پہلے اُسے کچھ دیا بھی جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں دیکھنا ہے کہ قیامت کے امتحان کے لیے ہمیں کیا پڑھایا گیا ہے؟ اس آخری جانچ پڑتال سے پہلے ہمیں کیا کچھ دیا گیا ہے؟ قرآن مجید کے بنیادی فلسفہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمع‘ بصر اور عقل تین بڑی چیزیں دی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر روح بھی ودیعت کی ہے اور نفس ِانسانی میں خیر اور شر کا علم بھی رکھاہے۔ ان باتوں کی بنا پر انسان وحی ٔالٰہی کی راہنمائی کے بغیر بھی اللہ کے حضور جواب دہ (accountable) ہے کہ جب تمہاری فطرت میں نیکی اور بدی کی تمیز رکھ دی گئی تھی تو تم بدی کی طرف کیوں گئے؟ تو گویا اگر کوئی نبی یا رسول نہ بھی آتا‘ کوئی کتاب نازل نہ بھی ہوتی‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے محاسبہ نا حق نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ بنیادی چیزیں جو امتحان اور احتساب کے لیے ضروری تھیں وہ اللہ تعالیٰ انسان کو دے چکا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ پھر بھی انسانوں پر اتمامِ حجت کرتا ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ حجت کیا ہے؟ بنیادی حجت تو عقل ہے جو اللہ نے ہمیں دے رکھی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلاً. ( بنی اسرائیل)۔ انسانی نفس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیزبھی ودیعت کر دی گئی ہے: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا. (الشمس) پھر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں اور اہلیتوں کی بنا پر جوابدہی (accountability) کا جواز برحق ہے۔ کوئی نبی آتا یا نہ آتا‘ اللہ کی یہ حجت تمام انسانوں پربہر حال قائم ہے۔
اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے اتمامِ حجت کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ یہ اضافی شے ہے کہ اللہ نے تم ہی میں سے کچھ لوگوں کو چنا‘ جو بڑے ہی اعلیٰ کردار کے لوگ تھے۔ تم جانتے تھے کہ یہ ہمارے ہاں کے بہترین لوگ ہیں‘ ان کے دامن کردار پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے‘ ان کی سیرت و اخلاق کھلی کتاب کی مانند تمہارے سامنے تھے۔ ان کے پاس اللہ نے اپنی وحی بھیجی اور واضح طور پر بتا دیا کہ انسان کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس طرح اُس نے تمہارے لیے اس امتحان کو آسان کر دیا‘ تا کہ اب کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے‘ کوئی یہ دلیل پیش نہ کر سکے کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا۔ پروردگار! میں تو بے دین ماحول میں پیدا ہو گیا تھا‘ وہاں سب کے سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ پروردگار! میں تواپنی دو وقت کی روٹی کے دھندے میں ہی ایسا مصروف رہا کہ مجھے کبھی ہوش ہی نہیں آیا کہ دین و ایمان اور اللہ و آخرت کے بارے میں سوچتا۔ لیکن جب رسول آ جاتے ہیں اور رسولوں کے آنے کے بعد حق کھل کر سامنے آ جاتا ہے‘ حق و باطل کے درمیان امتیاز بالکل واضح طور پر قائم ہو جاتا ہے تو پھر کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے محاسبہ کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ تو یہ ہے اتمامِ حجت کا فلسفہ اور طریقہ اللہ کی طرف سے۔ رسول اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں؟ کسی کو زبردستی تو ہدایت پر نہیں لا سکتے۔ ہاں جن کے اندر احساس جاگ جائے گا وہ رسول کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے‘ ان سے فائدہ اٹھائیں گے‘ سیدھے راستے پر چلیں گے۔ ان کے لیے اللہ کے رسول ’’مبشر‘‘ ہوں گے‘ اللہ کے فضل اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دینے والے: فَـرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ. (الواقعہ)۔ ۱ور جو لوگ اس کے بعد بھی غلط راستوں پر چلتے رہیں گے‘ تعصب ّمیں‘ ِضد اور ہٹ دھرمی میں‘ مفادات کے لالچ میں‘ اپنی چودھراہٹیں قائم رکھنے کے لالچ میں‘ ان کے لیے رسول ’’نذیر‘‘ ہوں گے۔ اُن کو خبردار کریں گے کہ اب تمہارے لیے بد ترین انجام کے طور پر جہنم تیار ہے۔ تو رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہے‘ یعنی تبشیر اور انذار۔
اس ساری وضاحت کے بعد اب دوبارہ آیت کے الفاظ کو سامنے رکھیے: رُُسُلاً مُّـبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ: ’’رسول بھیجے گئے بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر‘‘ یہ تبشیر اور انذار کس لیے؟ لِئلاَّ یَـکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ: ’’تا کہ باقی نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت‘ کوئی عذر‘ کوئی بہانہ‘ رسولوں کے آنے کے بعد‘‘۔ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا: ’’اور اللہ زبردست ہے‘ حکیم ہے‘‘۔ وہ عزیز ہے‘ غالب ہے‘ زبردست ہے‘ بغیر رسولوں کے بھی محاسبہ کر سکتا ہے‘ اس کا اختیار مطلق ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ حکیم بھی ہے‘ اُس نے محاسبۂ اُخروی کے لیے یہ مبنی بر حکمت نظام بنایا ہے ۔ اس ضمن میں ایک بات اور نوٹ کر لیجئے کہ رسالت کا ایک تکمیلی مقصد بھی ہے جو محمد رسول اللہ پر کامل ہوا‘ اور وہ ہے روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کرنا۔ آپ نے دعوت کا آغاز اسی تبشیر اور انذار ہی سے فرمایا‘ جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے: یٰٓــاَیـُّــہَا النَّبِیُّ اِنَّــآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُـبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا. بحیثیت ِرسول یہ آپ کی رسالت کے بنیادی مقصد کا اظہار ہے‘ لیکن اس سے بلند تر درجے میں آپ کی رسالت کی تکمیلی حیثیت کا اظہار سورۃ التوبہ آیت: 33‘ سورۃ الفتح آیت: 28 اور سورۃ الصف آیت: 9 میں ایک جیسے الفاظ میں ہوا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَــہ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ. ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین ِحق دے کر تاکہ وہ اسے غالب کر دے پورے دین پر‘‘۔ تمام انبیاء و رسل میں یہ آپ کی امتیازی شان ہے۔ میری کتاب ’’نبی اکرم کا مقصد ِبعثت‘‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔