June 9, 2025

قرآن کریم > الروم >sorah 30 ayat 39

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ

اوریہ جو تم سوددیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اﷲ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے، اور جو زکوٰۃ تم اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں

آیت ۳۹   وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ: ’’اور جو کچھ تم دیتے ہو سود پر تا کہ بڑھتا رہے لوگوں کے مال میں تو اللہ کے ہاں اس میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔‘‘

      اس آیت کا حوالہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۷۵ کی تشریح کے ضمن میں بھی دیا گیا ہے۔ دراصل اپنے مستقبل کے لیے بچت کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ پھر ہر شخص نہ صرف اپنی بچت کو سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچائی ہوئی رقم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی رہے۔ قرآن اس بچت کو ’’العَفْو‘‘ یعنی قدرِ زائد (surplus value) قرار دے کر اسے انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں اللہ کے بینک میں جمع کرانے کی ترغیب دیتا ہے : (وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ  قُلِ الْعَفْوَ) (البقرۃ: ۲۱۹) ’’ اور (اے نبی!) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟آپ کہہ دیجیے کہ (وہ سب خرچ کر دو) جو ضرورت سے زائد ہے!‘‘

      انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں ایسے مال سے محتاجوں اور ناداروں کی مدد بھی کی جا سکتی ہے اور اسے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کا کم تر درجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرضِ حسنہ کی شکل میں وقتی طور پر کسی ضرورت مند کی مدد کر دی جائے۔ بہر حال اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے راستے میں خرچ کیا ہوا مال اس کے ہاں محفوظ بھی رہے گا اور بڑھتا بھی رہے گا۔ یعنی آخرت میں اس کا اجر کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔

        وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ: ’’اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو (اوراس سے) اللہ کی رضا چاہتے ہو، تو یہی لوگ ہیں جو (اللہ کے ہاں اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں ۔‘‘

      دنیا میں جو لوگ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ کے راستے میں خرچ کر رہے ہیں انہیں آخرت میں اس کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جائے گا، بلکہ اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے اسے اور بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں اجر موعود کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا بھی حاصل ہو گی۔

      اس آیت میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کا تقابل کر کے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کسی شخص کی بچت کا بہترین مصرف ہے۔ اس میں منافع (اجر وثواب) بہت زیادہ بھی ہے اور دائمی بھی۔ دوسری طرف سود پر رقم دینا کسی بچت کا بد ترین مصرف ہے، جس میں ایک شخص بغیر کوئی محنت کیے اور بغیر کوئی خطرہ مول لیے ایک طے شدہ رقم باقاعدگی سے حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ اس کی اصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بارے میں یہاں فرمایا گیا کہ سود کی شکل میں سرمائے میں بظاہر جو اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اللہ کی نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صدقات اور سود کے تقابل کے حوالے سے دراصل یہاں دو متضاد ذہنیتوں کا تقابل بھی سامنے آتا ہے۔ ایک اس شخص کی ذہنیت ہے جو اپنے مال سے اللہ کی رضا کا متمنی ّہے جبکہ دوسرا شخص ا للہ کے احکام کی پروا کیے بغیر ہر قیمت پر اپنے سرمائے میں اضافہ چاہتا ہے۔

      یہاں ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس سرمایہ ہے مگر وہ خود محنت یا تجارت وغیرہ نہیں کر سکتا اوریہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے سرمائے میں اضافہ ہوتا رہے اس کے لیے شریعت اسلامی میں مضاربت کا طریقہ ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنی رقم کسی دوسرے شخص کو کاروبار وغیرہ کے لیے دے اور اس سے منافع وغیرہ کی شرائط طے کر لے۔ اب اگر اس کاروبار میں منافع ہو گا تو سرمایہ فراہم کرنے والا شخص اس میں سے شرائط کے مطابق اپنے حصے کا حق دار ہو گا لیکن نقصان کی صورت میں تمام نقصان اسے خود ہی برداشت کرنا ہوگا۔ عامل (محنت کرنے والا) اس نقصان میں حصہ دار نہیں ہو گا۔ اس ضمن میں مزید تفصیل کے لیے فقہ کی کتب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ 

UP
X
<>