June 12, 2025

قرآن کریم > الروم >sorah 30 ayat 35

أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ

بھلا کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے جو اُس شرک کا ارتکاب کرنے کو کہتی ہو جو یہ اﷲ کے ساتھ کے ساتھ کرتے رہے ہیں؟

آیت ۳۵   اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ: ’’کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی سند اتاری ہے جو انہیں ان چیزوں کے متعلق بتا رہی ہے جن کو یہ شریک ٹھہرا رہے ہیں !‘‘

      اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے بارے میں کیا ان لوگوں کے پاس کسی آسمانی کتاب میں کوئی دلیل موجو دہے جو اس شرک کی صداقت پر شہادت دیتی ہو جو یہ کر رہے ہیں ؟ کیا ان پر ایسی کوئی ہدایت نازل ہوئی ہے کہ فلاں شخصیت بھی اللہ کے برابر ہو سکتی ہے اور فلاں ہستی بھی اس کے اختیارات میں حصہ دار بن سکتی ہے؟ یہاں پر آسمانی سند یعنی الہامی کتاب کے بارے میں لفظ یَتَکَلَّم آیا ہے، یعنی کیا اللہ کی نازل کردہ کتاب ان سے اس بارے میں گفتگو کرتی ہے؟ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں قرآن کے لیے جو لفظ ’’گویا‘‘ (گفتگو کرنے والا) استعمال کیا ہے شاید اس کا تصور انہوں نے یہیں سے لیا ہو: ؎

مثل حق پنہاں وہم پیدا ست ایں

زندہ و پائندہ و گویا ست ایں !

یعنی حق تعالیٰ کی مانند یہ کلام پوشیدہ بھی ہے، ظاہر بھی ہے اور زندہ و پائندہ بھی۔ دوسری بہت سی صفات کے علاوہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے اور اس سے گفتگو کرتی ہے۔

UP
X
<>