قرآن کریم > النمل >sorah 27 ayat 80
إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
یاد رکھو کہ تم مُردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے، اور نہ تم بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہو، جب وہ پیٹھ پھیر کر چل کھڑے ہوں
آیت ۸۰ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی: ’’البتہ آپؐ ُمردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘
یعنی آپؐ کے ان مخاطبین میں سے اکثر لوگوں کے دل مردہ ہیں، ان کی روحیں ان کے دلوں کے اندر دفن ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ صرف حیوانی طور پر زندہ ہیں جبکہ روحانی طور پر ان میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ابو جہل اور ابولہب کو آپ زندہ مت سمجھیں، یہ تو محض چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ اس کیفیت میں وہ آپؐ کی ان باتوں کو کیسے سن سکتے ہیں! میر درد نے اپنے اس شعر میں انسان کی اسی روحانی زندگی کا ذکر کیا ہے: ؎
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے!
وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ: ’’اور نہ آپؐ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل پڑیں۔‘‘
یعنی ایک بہرا شخص آپ کے رو برو ہو، آپ کی طرف متوجہ ہو تو پھر بھی امکان ہے کہ آپ اشارے کنائے سے اپنی کوئی بات اسے سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن جب وہ پلٹ کر دوسری طرف چل پڑے تو اسے کوئی بات سمجھانا یا سنانا ممکن نہیں رہتا۔