قرآن کریم > الشعراء >sorah 26 ayat 22
وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ
اور وہ احسان جو تم مجھ پر رکھ رہے ہو، (اُس کی حقیقت) یہ ہے کہ تم نے سارے بنو اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔‘‘
آیت ۲۲ وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ: ’’اور یہ وہ احسان ہے جو تم مجھے جتلا رہے ہو جس کے عوض تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے! ‘‘
ان الفاظ کے تیور بتا رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ فرعون کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے کہ اپنے محل میں ایک اسرائیلی بچے کی پرورش کر نے کا تمہارا احسان کیا تمہیں یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ تم پوری بنی اسرائیل قوم کو اپنا غلام بنائے رکھو؟ میری پرورش کرنے کا کارنامہ تو تمہیں بر وقت یا د آگیا لیکن میری قوم کو جو تم نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا ہے، اس کا کوئی تذکرہ تم نے نہیں کیا۔ یہاں عَبَّدْتَّٰ کا لفظ لائق توجہ ہے۔ ’’تَعْبِید‘‘ کے معنی کسی کو غلام اور فرمانبردار بنا لینے کے ہیں۔ اسی سیاق و سباق میں ایک دوسری جگہ فرعون کا یہ فقرہ اس لفظ، کے مفہوم کو مزید واضح کرتا ہے: (وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ) (المؤمنون) ’’اور ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام ہے! ‘‘