قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 53
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُل لاَّ تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور یہ (منافق لوگ) بڑے زوروں سے اﷲ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر (اے پیغمبر !) تم انہیں حکم دو گے تو یہ نکل کھڑے ہوں گے۔ (ان سے) کہو کہ : ’’ قسمیں نہ کھاؤ۔ (تمہاری) فرماں برداری کا سب کو پتہ ہے۔ یقین جانو کہ تم جو کچھ کرتے ہو، اﷲ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
آیت ۵۳: وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ اَمَرْتَہُمْ لَیَخْرُجُنَّ: «اور وہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں، اپنی امکانی حد تک پکی قسمیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ ضرور نکلیں گے۔»
منافقین سے جب بھی کسی قربانی کا تقاضا کیا جاتا یا جہاد کے لیے نکلنے کا مرحلہ آتا تو وہ بہانے تراشتے ہوئے قسمیں کھاتے کہ ہمیں فلاں مجبوری ہے، فلاں مسئلہ درپیش ہے، لیکن اگر آپ حکم دیں گے تو ہم بہرحال آپ کے ساتھ ضرور نکلیں گے۔ جماعتی زندگی میں یہ نمونہ آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ امیر کی طرف سے ایک واضح حکم آ جانے کے بعد بھی کچھ لوگ بہانے بناتے ہیں، اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں اور مجبوریاں گنوانے کے بعد یوں بھی کہتے ہیں کہ «ویسے اگر آپ حکم دیں تو ہم حاضر ہیں!» گویا جو پہلے حکم دیا گیا ہے وہ حکم نہیں ہے؟ امیر کی بات کو آپ حکم کیوں نہیں سمجھ رہے؟
تو کیا جہاد کے لیے ایک واضح حکم کے بعد منافقین یہ توقع رکھتے ہیں کہ حضور ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ خوشامد کر کے اسے راضی کریں کہ اجی! آپ ضرور جہاد کے لیے تشریف لے جائیں !
: قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ: «آپ ان سے کہیے کہ تم لوگ قسمیں نہ کھاؤ، بس معروف طریقے سے اطاعت اختیار کرو۔»
جب تم لوگ مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرنے اور مجھ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو تو باقی تمام اہل ایمان کی طرح میری اطاعت اختیار کرو۔ میری طرف سے جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اسے قبول کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ: «یقینا جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔»