August 21, 2025

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 88

فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ 

اور لوگوں کے سامنے ایک بچھڑا بنا کر نکال لیا، ایک جسم تھا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ لوگ کہنے لگے کہ : ’’ یہ تمہارا معبود ہے، اور موسیٰ کا بھی معبود ہے، مگر موسیٰ بھول گئے ہیں ۔‘‘

 آیت ۸۸:  فَاَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّـہُ خُوَارٌ:   «پھر اُس نے ان کے لیے ایک بچھڑا برآمد کر دیا، ایک دھڑ جس سے ڈکرانے کی آواز آتی تھی۔»

            اس سلسلے میں جو مختلف روایات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مصر میں اگرچہ اسرائیلی قوم کی حیثیت غلامانہ تھی مگر حضرت ابراہیم کی نسل سے تعلق کی وجہ سے ان کی دیانت داری مسلم تھی۔ چنانچہ قبطی قوم کے لوگ اپنے زیورات اور دوسری قیمتی چیزیں اکثر ان کے پاس امانت رکھوایا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ مصر سے نکلے تو قبطی قوم کے بہت سے زیورات بھی وہ اپنے ساتھ لے آئے جو ان میں سے اکثر لوگوں کے پاس بطور امانت پڑے تھے۔ البتہ اس کا ان کے ذہن پر ایک بوجھ تھا کہ یہ ہمارے لیے جائز بھی ہیں یا نہیں؟ اس حوالے سے سامری نے بھی انہیں قائل کر لیا کہ اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کو یہ زیورات پھینک دینے چاہئیں۔ چنانچہ جب ان لوگوں نے وہ زیوارت پھینک دیے تو سامری نے انہیں پگھلا کر گائے کے بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا، اور اس میں خاص مہارت سے کچھ ایسے سوراخ رکھے کہ جب ان میں سے ہوا کا گزر ہوتا تو بیل کے ڈکرانے کی سی آواز پیدا ہوتی۔ اس کی دوسری توجیہہ وہ ہے جو سامری نے خود بیان کی اور اس کا ذکر آئندہ آیات میں آئے گا۔

            فَقَالُوْا ہٰذَآ اِلٰـہُکُمْ وَاِلٰـہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ:   «تو انہوں نے کہا کہ یہ ہے تمہارا معبود اور موسی ٰ کا معبود، مگر وہ (موسی) بھول گیا ہے۔»

            یعنی حضرت موسیٰ کو مغالطہ ہوا ہے جو وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے کوہِ طور پر چلے گئے ہیں، حالانکہ ہمارا اور ان کا رب تو یہاں موجود ہے۔

UP
X
<>