قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 85
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـهُمُ السَّامِرِيُّ
اﷲ نے فرمایا : ’’ پھر تمہارے آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کو فتنے میں مبتلا کر دیا ہے، اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘
آیت ۸۵: قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ: «اللہ نے فرمایا: تو ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو فتنے میں ڈال دیا ہے»
اگرچہ یہاں صراحت کے ساتھ ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے مگر انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اس عجلت پسند ی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کو فتنے میں مبتلا کر دیا۔
وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ: «اور انہیں گمراہ کر دیا ہے سامری نے۔»
اس اندازِ تخاطب میں یہ تفصیل بھی مضمر ہے کہ اگر آپ اپنی قوم کے ساتھ ساتھ رہتے، ان کا تزکیہ کرتے رہتے، وہ لوگ آپ کی تعلیم و تربیت سے مسلسل بہرہ مند ہوتے رہتے تو یقینا ان کی عقل و فہم مزید پختہ ہوتی اور اس طرح اس فتنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن جب آپ انہیں چھوڑ کر آ گئے تو اس کے نتیجے میں ایک فتنہ گر شخص کو اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔
سامری کے بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس کا تعلق قبطی قوم سے تھا اور کسی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے ساتھ مل چکا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں معتبر رائے یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہی تھا مگر منافق تھا اور حضرت موسیٰ سے اسے خاص کد تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابو عامر راہب کو حضور سے کد تھی۔ ابو عامر راہب کا ذکر سورۃ التوبہ کے مطالعے کے دوران آیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ خزرجی تھا۔ ابتدائی عمر میں بہت نیک اور عبادت گزار تھا، بعد میں اس نے عیسائیت قبول کر کے رہبانیت اختیار کر لی۔ حضور سے اسے خصوصی طور پر بغض تھا اور اس کا یہ بغض اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی آپ کے خلاف جدوجہد اور سازشوں میں مصروف رہا۔ چنانچہ جیسا کردار ابو عامر راہب کا اُمت ِمحمد میں رہا، اس سے ملتا جلتا کردار حضرت موسیٰ کی اُمت میں سامری کا تھا۔