14 Muharram ,1447 AHJuly 11, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 97

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ

(اے پیغمبر!) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اﷲ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے اور ایمان والوں کیلئے مجسم ہدایت اورخوشخبری ہے

جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے  محمد رسول اللہ   کی بعثت یہود کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔ اُن کا خیال تھا کہ آخری نبوت کا وقت قریب ہے اور یہ نبی بھی حسب سابق بنی اسرائیل میں سے مبعوث ہو گا۔ لیکن نبی آخر الزمان کی بعثت بنی اسماعیل میں سے ہو گئی۔ یہود جس احساسِ برتری کا شکار تھے اس کی رو سے وہ بنی اسماعیل کو حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اُمّی لوگ ہیں،  اَن پڑھ ہیں،  ان کے پاس نہ کوئی کتاب ہے، نہ شریعت ہے اور نہ کوئی قانون اور ضابطہ ہے،  لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُن میں سے ایک شخص کو کیسے چن لیا؟ ان کا خیال تھا کہ یہ سب جبرائیل کی  شرارت  ہے کہ وہ وحی لے کر محمد عربی  کے پاس چلا گیا۔ لہٰذا وہ حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن تصور ّکرتے تھے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔

            یہ بات شاید آپ کو بڑی عجیب لگے کہ اہل تشیع میں سے فرقہ غرابیہ کا عقیدہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ حضرت ّمجدد الف ِثانی شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاتیب میں اس فرقے کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت محمد   اور حضرت علی دونوں کی ارواح ایک دوسرے کے بالکل ایسے مشابہ تھیں جیسے ایک غراب ّ(کوا) دوسرے غراب کے مشابہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت جبرائیل  دھوکہ کھا گئے۔ اللہ نے تو وحی بھیجی تھی حضرت علی کے پاس،  لیکن وہ لے گئے حضرت محمد   کے پاس۔ یہود کے ہاں یہ عقیدہ موجود تھا کہ اللہ نے توجبرائیل (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا،  لیکن وہ محمد  کے پاس چلے گئے،  اور یہی مفروضہ ان کی حضرت جبرائیل سے دشمنی کی بنیاد تھا۔ رسول اللہ   نے فرمایا تھا: ((لَـیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ))   «میری اُمت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے تھے،  جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے» ۔ چنانچہ اُمت ِمسلمہ میں سے کسی فرقے کا اس طرح کے عقائد اپنا لینا کچھ بعید نہیں ہے۔ اس سے اس حدیث کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔

  آیت  97:   قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ:   (اے نبی!) کہہ دیجیے جو کوئی بھی دشمن ہو جبرائیل  کا،  

             فَاِنَّــہ نَزَّلَــہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ:   تو (وہ یہ جان لے کہ) اُس نے تو نازل کیا ہے اس قرآن کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم  سے،  

            اس معاملے میں جبرائیل  کوتو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں،  اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔

             مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ:   یہ تصدیق کرتے ہوئے آیا ہے اُس کلام کی جو اس کے سامنے موجود ہے  

             وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ:  اور ہدایت اور بشارت ہے اہل ایمان کے لیے ۔  

            اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ،  اس کے رسول اور اُس کے ملائکہ سب ایک حیاتیاتی وحدت (organic whole)  کی حیثیت رکھتے ہیں،  یہ ایک جماعت ہیں،  ان میں کوئی اختلاف یا افتراق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی جبرائیل   کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا دشمن ہے ،  اور اگر کوئی اللہ کے سچے رسول کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا بھی دشمن ہے اور جبرائیل   کا بھی دشمن ہے۔

X
<>