July 13, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 87

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی، پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسندنہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا اور بعض کو قتل کرتے رہے

 آیت  87:    وَلَقَدْ اٰتَیْـنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ:   اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی  (یعنی تورات )

             وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہ بِالرُّسُلِ:   اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔  

            ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں لفظ  «الرُّسُل»  انبیاء کے معنی میں آیا ہے۔ نبی اور رسول میں کچھ فرق ہے،  اسے اختصار کے ساتھ سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ وہ تینوں مترادف کے طور پر بھی استعمال ہو جاتے ہیں اور اپنا علیحدہ علیحدہ مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ضمن میں علماء کرام نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ  «اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا»  یعنی جب (ایک جوڑے کے) دونوں لفظ اکٹھے استعمال ہوں گے تو دونوں کا مفہوم مختلف ہو گا ،  اور جب یہ دونوں الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک معنی میں استعمال ہو جائیں گے۔ ان میں سے ایک جوڑا  اسلام  اور  ایمان  یا  مسلم  اور  مؤمن  کا ہے۔ عام طور پر مسلم کی جگہ مؤمن اور مؤمن کی جگہ مسلم استعمال ہو جاتا ہے،  لیکن سورۃ الحجرات میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں تو ان کا فرق واضح ہو گیا ہے۔  فرمایا:  قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا  قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا…:  (آیت: 14)  « بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہیے کہ تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو،  البتہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے…»  اسی طرح  ـجہاد  اور  قتال  کا معاملہ ہے۔  یہ دو مختلف الفاظ ہیں،  جن کا مفہوم جدا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کی جگہ بھی آ جاتے ہیں۔

             اس ضمن میں تیسرا جوڑا  نبی  اور  رسول  کا ہے۔  یہ دونوں لفظ بھی اکثر ایک دوسرے کی جگہ آ جاتے ہیں،  لیکن ان میں فرق بھی ہے۔  ہر نبی رسول نہیں ہوتا،  البتہ ہر رسول لازماً نبی ہوتا ہے ۔ یعنی نبی عام ہے رسول خاص ہے۔ نبی کو جب کسی خاص قوم کی طرف معین ّطور پر بھیج دیا جاتا ہے تب اس کی حیثیت رسول کی ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے اُس کی حیثیت انتہائی اعلیٰ مرتبہ پر فائز ایک ولی اللہ کی ہے ،  جس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عام ولی اللہ میں اور نبی میں فرق یہی ہے کہ نبی پر وحی آتی ہے،  ولی پر وحی نہیں آتی۔ لیکن کسی نبی کو جب کسی معین قوم کی طرف مبعوث کر دیا جاتا تھا تو پھر وہ رسول ہوتا تھا۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو حکم دیا گیا: اِذْھَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّـہ طَغٰی.  (طٰہٰ ) «تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ ،  یقینا وہ سر کشی پر اتر آیا ہے»۔ اسی طرح دوسرے رسولوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مثلاً:   وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْـبًا.  (الاعراف: 85) «اور مدین کی طرف بھیجا ہم نے ان کے بھائی شعیب  کو»۔ یہ فرق ہے نبی اور رسول کا۔ محض سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کر رہا ہوں کہ جیسے آپ کے یہاں خصوصی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل  CSP cadre ہے،  ان میں سے کوئی ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے، کسی کو جوائنٹ سکریٹری کی ّذمہ داری تفویض کی جاتی ہے،  تو کوئی بطور  O.S.Dخدمات انجام دیتا ہے،  لیکن اس کا کاڈر (CSP) برقرار رہتا ہے۔ اسی اعتبار سے ہر نبی ہر حال میں نبی ہوتا تھا،  لیکن اُسے  رسول  کی حیثیت سے ایک اضافی ذمہ داری اور اضافی مرتبہ عطا کیا جاتا تھا۔

            نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں ایک بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ نبیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے،  جبکہ رسول قتل نہیں ہو سکتے۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ  لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.  (المُجادلۃ: 21)  «لازماً غالب رہیں گے َمیں اور میرے رسول »۔ چنانچہ جب بھی کسی قوم نے کسی رسول   کی جان لینے کی کوشش کی تو اس قوم کو ہلاک کر دیا گیا اور رسول   اور اُس کے ساتھیوں کو بچا لیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ نبیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ حضرت یحییٰ نبی تھے،  قتل کر دیے گئے،  جبکہ حضرت عیسیٰ  رسول تھے،  لہٰذا قتل نہیں کیے جا سکتے تھے،  ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ،  جو قیامت سے قبل دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے۔ محمد رسول اللہ   کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے کی شدید تمنا تھی۔ آپ نے اپنی اس تمنا اور آرزو کا اظہار اِن الفاظ میں فرمایا ہے:

((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَـوَدِدْتُ اَنْ اُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْـتَـلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْـتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ  ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْـتَلَ ))  

 «قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ ٔقدرت میں میری جان ہے! میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں تو اس میں قتل کر دیا جاؤ ں ،  پھر میں زندہ کیا جاؤ ں،  پھر قتل کیا جاؤ ں،  پھر میں زندہ کیا جاؤ ں،  پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤ ں،  پھر میں زندہ کیا جاؤ ں،  پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤ ں»!

لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ   کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ اس لیے کہ آپ اللہ کے رسول تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں نوٹ کیجیے کہ اگر چہ یہاں لفظ رسول آ گیا ہے لیکن یہ نبی کے معنی میں آیا ہے،  وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہ بِالرُّسُلِ.   «اور ہم نے موسٰی   کے بعد لگا تار پیغمبر بھیجے »۔ حضرت موسیٰ کے بعد رسول تو حضرت عیسیٰ ہی ہیں،  درمیان میں جو پیغمبر (prophets)  ہیں یہ سب انبیاء ہیں۔

             وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَـیِّنٰتِ:   اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑی واضح نشانیاں دیں،  

            حسِّی معجزات جس قدر حضرت مسیح کو دیے گئے ویسے اور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ان کا تذکرہ آگے چل کر سورئہ آل عمران میں آئے گا۔

             وَاَیَّدْنٰـہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ:  اور ہم  نے مدد کی ان کی روح القدس کے ساتھ۔  

            حضرت عیسیٰ  کو حضرت جبرائیل کی خاص تائید و نصرت حاصل تھی۔ معجزات کا ظہور کسی نبی یا رسول کی اپنی طاقت سے نہیں ہوتا،  اسی طرح کرامت کسی ولی اللہ کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی،  یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا ظہور فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔

             اَفَـکُلَّمَا جَآءَکُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لاَ تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ:   پھر بھلا کیا جب بھی آیا تمہارے پاس کوئی رسول وہ چیز لے کر جو تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف تھی تو تم نے تکبر کیا۔  

            انبیاء و رُسل  کے ساتھ یہود نے جو طرزِ عمل روا رکھا،  خاص طور پر حضرت عیسیٰ  کے ساتھ جو کچھ کیا،  یہاں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر آیا تو تمہاری روش یہی رہی کہ تم نے استکبار کیا اور سرکشی کی ، وہی استکبار اور سرکشی جس کے باعث عزازیل ابلیس بن گیا تھا۔

             فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ:   پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کر دیا۔  

            اللہ کے رسول چونکہ قتل نہیں ہو سکتے لہٰذا یہاں نبیوں کا قتل مراد ہے۔ مزید برآں ایک رائے یہ بھی دی گئی ہے کہ یہاں ماضی کا صیغہ  «قَـتَلْتُمْ»  نہیں آیا ،  بلکہ فعل مضارع  «تَقْتُلُوْنَ»  آیا ہے اور مضارع کے اندر فعل جاری رہنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ گویا تم ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے،  بعض رسولوں کی تو جان کے درپے ہو گئے۔

UP
X
<>