July 14, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 84

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ

 

اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا کہ : ’’ تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالوگے ‘‘ پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو

 

اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کے علاوہ ایک اور عہد بھی لیا تھا،  جس کا ذکر بایں الفاظ کیا جارہا ہے:

  آیت 84:   وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَـکُمْ:  اور جب ہم نے تم سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ  

             لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَآءَکُمْ:   تم اپنا خون نہیں بہاؤ  گے  

            یعنی آپس میں جنگ نہیں کرو گے،  باہم خون ریزی نہیں کرو گے۔ تم بنی اسرائیل ایک وحدت بن کر رہو گے،  تم سب بھائی بھائی بن کر رہو گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ:  (الحُجُرٰت: 10)

             وَلاَ تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ:   اور نہ ہی تم نکالو گے اپنے لوگوں کو اُن کے گھروں سے  

             ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ  :  پھر تم  نے اس کا اقرار کیا تھا مانتے ہوئے۔  

            یعنی تم نے اس قول و قرار کو پورے شعور کے ساتھ مانا تھا۔

            حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلا شہر اریحا (Jericko)  فتح کیا گیا۔ اس کے بعد جب سارا فلسطین فتح کر لیا تو انہوں نے ایک مرکزی حکومت قائم نہیں کی،  بلکہ بارہ قبیلوں نے اپنی اپنی بارہ حکومتیں بنا لیں۔ ان حکومتوں کی باہمی آویزش کے نتیجے میں ان کی آپس میں جنگیں ہوتی تھیں اور یہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرتے تھے،  انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ فرار ہو کر کسی کافر ملک میں چلے جاتے اور کفار ّانہیں غلام یا قیدی بنا لیتے اور یہ اس حالت میں ان کے سامنے لائے جاتے تو فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا اسرائیلی بھائی اگر کبھی اسیر ہو جائے تو اس کو فدیہ دے کر چھڑا لو۔ یہ ان کا جزوی اطاعت کا طرزِ عمل تھا کہ ایک حکم کو تو مانا نہیں اور دوسرے پر عمل ہو رہا ہے۔ اصل حکم تو یہ تھا کہ آپس میں خونریزی مت کرو اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اس حکم کی تو پروا نہیں کی اور اسے توڑ دیا ، لیکن اس وجہ سے جو اسرائیلی غلام  بن گئے یا اسیر ہو گئے اب ان کو بڑے متقیانہ ّ انداز میں چھڑا رہے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے،  شریعت کا حکم ہے۔  یہ ہے وہ تضاد جو مسلمان اُمتوں کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔  

UP
X
<>