قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 79
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ
لہٰذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کمالیں ۔ پس تباہی ہے ان لوگو ں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں
آیت 79: فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ: پس ہلاکت اور بربادی ہے ان کے لیے جو کتاب لکھتے ہیں اپنے ہاتھ سے۔
« وَیْل» کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ جہنم کا وہ طبقہ ہے جس سے خود جہنم پناہ مانگتی ہے۔
ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ: پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے ،
لِیَشْتَرُوْا بِہ ثَمَناً قَلِیلاً: تا کہ حاصل کرلیں اُس کے بدلے حقیر سی قیمت۔
یعنی لوگ علماءِ یہود سے شرعی مسائل دریافت کرتے تو وہ اپنے پاس سے مسئلے گھڑ کر فتویٰ لکھ دیتے اور لوگوں کو باور کراتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، یہی دین کا تقاضا ہے۔ اب اس فتویٰ نویسی میں کتنی کچھ واقعتًا انہوں نے صحیح بات کہی ، کتنی ہٹ دھرمی سے کام لیا اور کس قدر کسی رشوت پر مبنی کوئی رائے دی ، اللہ کے حضور سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ علامہ اقبال نے علمائِ سوء کا نقشہ اِن الفاظ میں کھینچا ہے :
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
علمائِ یہود کا کردار اسی طرح کا تھا۔
فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَـبَتْ اَیْدِیْہِمْ: تو ہلاکت اور بربادی ہے ان کے لیے اس چیز سے کہ جو اُن کے ہاتھوں نے لکھی ،
وَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ: اور اُن کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے اس کمائی سے جو وہ کر رہے ہیں۔
یہ فتویٰ فروشی اور دین فروشی کا جو سارا دھندا ہے اس سے وہ اپنے لیے تباہی اور بربادی مول لے رہے ہیں ، اس سے اُن کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ اب آگے ان کی بعض (اَمَانِیّ) کا تذکرہ ہے۔