July 16, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 75

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

(مسلمانو!) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اﷲ کا کلام سنتے تھے پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے

اب تک ہم نے سورۃ البقرۃ کے آٹھ رکوع اور ان پر مستزاد تین آیات کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔  َسابقہ اُمت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ خطاب کا سلسلہ سورۃ البقرۃ کے دس رکوعوں پر محیط ہے۔  یہ سلسلہ پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا اور پندرہویں رکوع کے آغاز تک چلے گا۔  اس سلسلۂ خطاب کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے اور وہ بہت فیصلہ کن ہے ، جبکہ اگلے رکوع سے اسلوبِ کلام تبدیل ہو گیا ہے اور تہدید اور دھمکی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پانچواں رکوع اس پورے سلسلۂ خطاب میں بمنزلہ ٔفاتحہ بہت اہم ہے اور جو بقیہ نو (۹) رکوع ہیں ان کے آغاز و اختتام پر بریکٹ کا انداز ہے کہ دو آیتوں سے بریکٹ شروع ہوتی ہے اور انہی دو آیتوں پر بریکٹ ختم ہو تی ہے ، جبکہ پانچویں رکوع کے مضامین اس پورے سلسلۂ خطاب سے ضرب کھا رہے ہیں ۔  ان رکوعوں میں بنی اسرائیل کے خلاف ایک مفصل فردِ قرار دادِ جرم عائد کی گئی ہے ، جس کے نتیجے میں وہ اُس منصب جلیلہ سے معزول کر دیے گئے جس پر دو ہزار برس سے فائز تھے اور ان کی جگہ پر اب نئی اُمت ِمسلمہ یعنی اُمت ِمحمد  کا اس منصب پر تقرر عمل میں آیا اور اس مسند نشینی کی تقریب Installation Ceremony  کے طور پر تحویل ِقبلہ کا معاملہ ہوا۔  یہ ربط ِکلام اگر سامنے نہ رہے تو انسان قرآ ن مجید کی طویل سورتوں کو پڑھتے ہوئے کھو جاتا ہے کہ بات کہاں سے چلی تھی اور اب کدھر جا رہی ہے۔  

            ان نو رکوعوں کے مضامین میں کچھ تو تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ تم نے یہ کیا  ، تم نے یہ کیا! لیکن ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے بعض ایسے عظیم ابدی حقائق اور Universal Truths بیان ہوئے ہیں کہ اُن کا تعلق کسی وقت سے ، کسی قوم سے یا کسی خاص گروہ سے نہیں ہے۔  وہ تو ایسے اصول ہیں جنہیں ہم ّسنت ُ اللہ  کہہ سکتے ہیں۔  اس کائنات میں ایک تو قوانین طبیعیہ (Physical Laws) ہیں ، جبکہ ایک Moral Laws  ہیں جو اللہ کی طرف سے اس دنیا میں کار فرما ہیں۔  سورۃ البقرۃ کے زیر مطالعہ نو رکوعوں میں تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات کے بیان کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی آیات آتی ہیں جو اس سلسلۂ کلام کے اندر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔  اُن میں درحقیقت موجودہ اُمت ِمسلمہ کے لیے راہنمائی پوشیدہ ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلۂ خطاب کے دوران آیت: 41 میں وارد شدہ یہ الفاظ یاد کیجیے:  وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَــآؤُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ:  «اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے»۔  معلوم ہوا کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان اُمت جس پر اللہ کے بڑے فضل ہوئے ہوں  ،اسے بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو  ، اور پھر وہ اپنی بے عملی یا بد عملی کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہو جائے اور ذلت ّو مسکنت اُس پر تھوپ دی جائے۔  یہ ایک ابدی حقیقت ہے جو اِن الفاظ میں بیان ہو گئی۔  اُمت ِمسلمہ کے لیے یہ ایک لمحہ ٔفکریہ ہے کہ کیا آج ہم تو اُس مقام پر نہیں پہنچ گئے؟

            دوسرا اسی طرح کا مقام گزشتہ آیت (74) میں گزرا ہے ، جہاں ایک عظیم ابدی حقیقت بیان ہوئی ہے:  ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً: «پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اس سب کے بعد ، پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ، بلکہ سختی میں ان سے بھی شدید تر ہیں »۔  گویا اسی اُمت ِمسلمہ کا یہ حال بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے دل اتنے سخت ہو جائیں کہ سختی میں پتھروں اور چٹانوں کو مات دے جائیں۔  حالانکہ یہ وہی اُمت ہے جس کے بارے میں فرمایا: وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ:    

ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!

البتہ یہاں ایک بات واضح رہے کہ اس قساوتِ قلبی میں پوری اُمت مبتلا نہیں ہوا کرتی  ، بلکہ اس کیفیت میں اُمت کے قائدین مبتلا ہو جاتے ہیں اور اُمت مسلمہ کے قائدین اُس کے علماء ہوتے ہیں۔  چنانچہ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ خرابی اُن میں دَر آتی ہے ۔  اس لیے کہ باقی لوگ تو پیرو کار ہیں ، ان کے پیچھے چلتے ہیں ، ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے جاننے والے ہیں۔  لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کر رہے ہوں اورجانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اُس کا انکار کر رہے ہوں انہیں تو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں! در حقیقت یہ سزا اُن پر آتی ہے۔  یہ بات ان آیات میں جو آج ہم پڑھنے چلے ہیں ، بہت زیادہ واضح ہو جائے گی (اِن شاء اللہ)۔

 فرمایا:

  آیت 75:   اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّـؤْمِنُوْا لَــکُمْ:  تو کیا (اے مسلمانو!) تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے؟   

            عام مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ یہود دین ِاسلام کی مخالفت نہیں کریں گے۔  اس لیے کہ مشرکین مکہ تو دینِ توحید سے بہت دُور تھے ، رسالت کا ان کے ہاں کوئی تصور ّہی نہیں تھا ، کوئی کتاب ان کے پاس تھی ہی نہیں۔  جبکہ یہود تو اہل ِکتاب تھے ، حاملین ِتورات تھے ، موسیٰ   کے ماننے والے تھے ، توحید کے علم بردار تھے اور آخرت کا بھی اقرار کرتے تھے۔  چنانچہ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ انہیں تو ٌمحمد رسول اللہ  اور آپ  کی دعوت کو جھٹ پٹ مان لینا چاہیے۔  تو مسلمانوں کے دلوں میں یہود کے بارے میں جو حسنِ ظن تھا ، یہاں اس کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانو! تمہیں بڑی طمع ہے ، تمہاری یہ خواہش ہے ، آرزو ہے ، تمنا ّہے ، تمہیں توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔

             وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ: جبکہ حال یہ ہے کہ ان میں ایک گروہ وہ بھی تھا کہ جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کرتا تھا۔    

            ظاہر بات ہے وہ گروہ ان کے علماء ہی کا تھا۔  عام آدمی تو اللہ کی کتاب میں تحریف نہیں کر سکتا۔

            اب اگلی آیت میں بڑی عجیب بات سامنے آ رہی ہے۔  جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافقین موجود تھے اسی طرح یہود میں بھی منافقین تھے۔  یہود میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب ان پر حق منکشف ہو گیا تو اب وہ اسلام کی طرف آنا چاہتے تھے۔  لیکن ان کے لیے اپنے خاندان کو ، گھر بار کو ، اپنے کاروبار کو اور اپنے قبیلے کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا ، جبکہ قبیلوں کی سرداری اُن کے علماء کے پاس تھی۔  ایسے لوگوں کے دل کچھ کچھ اہل ایمان کے قریب آ چکے تھے۔ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے تھے تو کبھی کبھی وہ باتیں بھی بتا جاتے تھے جو انہوں نے علمائِ یہود سے نبی آخرالزمان   اور ان کی تعلیمات کے بارے میں سن رکھی تھیں کہ تورات ان کی گواہی دیتی ہے۔  اس کے بعد جب وہ اپنے  «شیاطین»  یعنی علماء کے پاس جاتے تھے تو وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے کہ بیوقوفو! یہ کیا کر رہے ہو؟ تم انہیں یہ باتیں بتا رہے ہو تا کہ اللہ کے ہاں جا کر وہ تم پر حجت قائم کریں کہ انہیں پتا تھا اور پھر بھی انہوں نے نہیں مانا!

UP
X
<>