قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 144
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
(اے پیغمبر !) ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں چنانچہ ہم تمہارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو تمہیں پسند ہے ۔ لو اب اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کر لو ۔ اور (آئندہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) اسی کی طرف رکھا کرو اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہی بات حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے ۔ اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اﷲ اس سے غافل نہیں ہے
آیت 144: قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآء: (اے نبی!) بلا شبہ ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھتے رہے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ کو تحویل قبلہ کے فیصلے کا انتظار تھا اور آپ پر بھی یہ وقفہ شاق گزر رہا تھا جس میں نماز پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف پیٹھ ہو رہی تھی۔ چنانچہ آپ کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اُٹھتی تھیں کہ کب جبریل امین تحویل قبلہ کا حکم لے کر نازل ہوں۔
فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا: سو ہم پھیرے دیتے ہیں آپ کو اُسی قبلے کی طرف جو آپ کو پسند ہے۔
اس آیت میں محمد رسول اللہ کے لیے اللہ کی طرف سے بڑی محبت، بڑی شفقت اور بڑی عنایت کا اظہار ہو رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ کو بیت اللہ کے ساتھ بڑی محبت تھی، اس کے ساتھ آپ کا ایک رشتۂ قلبی تھا۔
فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: تو بس اب پھیر دیجیے اپنے رُخ کو مسجد حرام کی طرف !
وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہ: اور (اے مسلمانو!) جہاں کہیں بھی تم ہو اَب اپنا چہرہ (نماز میں) اسی کی طرف پھیرو۔
وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَـیَعْلَمُوْنَ اَنَّـہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ: اور یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی ، جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا حکم) حق ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ۔
تورات میں بھی یہ مذکور تھا کہ اصل قبلۂ ابراہیمی بیت اللہ ہی تھا۔ بیت المقدس کو تو حضرت ابراہیم کے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان نے تعمیر کیا تھا، جسے ہیکل ِسلیمانی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ «اَنَّـہ » سے مراد یہاں بیت اللہ کا اس اُمت کے لیے قبلہ ہونا ہے۔ اس بات کا حق ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یہود پر واضح تھا اور اس کے اشارات و قرائن تورات میں موجود تھے، لیکن یہود اپنے حسد اور عناد کے سبب اس حقیقت کو بھی دوسرے بہت سے حقائق کی طرح جانتے بوجھتے چھپاتے تھے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے مولانا حمید الدین فراہی کا رسالہ « الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح» بہت اہم ہے، جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے «ذبیح کون ہے؟» کے عنوان سے کیا ہے۔
وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ: اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو وہ کر رہے ہیں۔