July 11, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 142

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

اب یہ بے وقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان (مسلمانوں) کو اس قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ کر دیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آرہے تھے؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب سب اﷲ ہی کی ہیں وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دیتا ہے

دو رکوعوں پر مشتمل تمہید کے بعد اب تحویل ِقبلہ کا مضمون براہِ راست آ رہا ہے،  جو پورے دو رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ کون سی ایسی بڑی بات تھی جس کے لیے قرآن مجید میں اتنے شد ومد ّکے ساتھ اور اس قدر تفصیل بلکہ تکرار کے ساتھ بات کی گئی ہے؟ اس کو یوں سمجھئے کہ ایک خاص مذہبی ذہنیت ہوتی ہے،  جس کے حامل لوگوں کی توجہ ّاعمال کے ظاہر پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے اور اعمال کی روح ان کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ عوام الناس کا معاملہ بالعموم یہی ہو جاتا ہے کہ ان کے ہاں اصل اہمیت دین کے ظواہر اور مراسمِ عبودیت کو حاصل ہو جاتی ہے اور جو اصل روحِ دین ہے،  جو مقاصد ِدین ہیں،  ان کی طرف توجہ ّنہیں ہوتی۔ نتیجتاً ظواہر میں ذرا سا فرق بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی مثال یوں سامنے آتی ہے کہ احناف کی مسجد میں اگر کسی نے رفع یدین کر لیا یا کسی نے آمین ذرا اونچی آواز میں کہہ دیا تو گویا قیامت آ گئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہماری مسجد میں کوئی اور ہی آ گیا۔ اس مذہبی ذہنیت کے پس منظر میں یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں تھا۔

            اس کے علاوہ یہ مسئلہ قبائلی اور قومی پس منظر کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے ظاہر ہے ان سب کو خانہ کعبہ کے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ خود نبی اکرم   نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو آپ روتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے اور آپ نے فرمایا تھا کہ اے کعبہ! مجھے تجھ سے بڑی محبت ہے ،  لیکن تیرے یہاں کے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آپ مکہ میں تھے تو آپ  کعبہ کی جنوبی دیوار کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہوتے۔ یوں آپ  کا رُخ شمال کی طرف ہوتا،  کعبہ آپ کے سامنے ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی آ جاتا۔ اس طرح  استقبال القبلتین  کا اہتمام ہو جاتا۔ لیکن مدینہ میں آ کر آپ نے رُخ بدل دیا اور بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ یہاں  استقبال القبلتین  ممکن نہ تھا،  اس لیے کہ یروشلم مدینہ منورہ کے شمال میں ہے، جبکہ مکہ مکرمہ جنوب میں ہے ۔ اب اگر خانہ کعبہ کی طرف رُخ کریں گے تو یروشلم کی طرف پیٹھ ہو گی اور یروشلم کی طرف رُخ کریں گے تو کعبہ کی طرف پیٹھ  ہو گی۔ چنانچہ اب اہل ایمان کا امتحان ہو گیا کہ آیا وہ محمدٌ رسول اللہ   کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں یا اپنی پرانی عقیدتوں اور پرانی روایات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے ان کی اتنی تربیت ہو چکی تھی کہ ان میں سے کسی کے لیے یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ بقول اقبال::

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است!

حالانکہ قرآ ن مجید میں کہیں منقول نہیں ہے کہ اللہ نے اپنے نبی   کو بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ حکم وحی ٔ خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہو،  تاہم وحی ٔ جلی میں یہ حکم کہیں نہیں ہے کہ اب یروشلم کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھیے۔ یہ مسلمانوں کا اتباعِ رسول کے حوالے سے ایک امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ پھر جب یہ حکم آیا کہ اپنے رُخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو تو یہ اب اُن مسلمانوں کا امتحان تھا جو مدینہ کے رہنے والے تھے۔ اس لیے کہ ان میں سے بعض یہودیت ترک کر کے ایمان لائے تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن سلام  علماء یہود میں سے تھے،  لیکن جو اور دوسرے لوگ تھے وہ بھی علماء یہود کے زیر اثر تھے اور ان کے دل میں بھی یروشلم کی عظمت تھی۔ اب جب انہیں بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ اُن کے ایمان کا امتحان ہو گیا۔

            مزید بر آں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوا ہو گا کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا تو ہم نے اب تک بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا کیا بنے گا؟ کیا وہ نمازیں ضائع ہو گئیں؟ نماز تو ایمان کا رکن ِرکین ہے! چنانچہ اس اعتبار سے بھی بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ سیاسی اعتبار سے یہ پیدا ہوا کہ یہود اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں اور محمد نے ہمارا قبلہ اختیار کر لیا ہے،  تو یہ گویا ہمارے ہی پیرو کار ہیں،  لہٰذا ہمیں ان کی طرف سے کوئی خاص اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اب جب تحویل قبلہ کا حکم آ گیا تو ان کے کان کھڑے ہو گئے کہ یہ تو کوئی نئی ملت ّہے اور ایک نئی اُمت کی تشکیل ہو رہی ہے۔ چنانچہ ان کی طرف سے مخالفت کے اندر شدت پیدا ہو گئی۔ یہ سارے مضامین یہاں پر زیر بحث آ رہے ہیں۔

 آیت 142:    سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ:   عنقریب کہیں گے لوگوں میں سے احمق اور بیوقوف لوگ،  

             مَاوَلّٰٹہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَا:   کس چیز نے پھیر دیا انہیں اس قبلے سے جس پر یہ تھے؟  

            یعنی سولہ سترہ مہینے تک انہوں نے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی ہے،  اب انہیں بیت اللہ کی طرف کس چیز نے پھیر دیا ؟

             قُلْ لِّـلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ:   کہہ دیجیے کہ اللہ ہی کے ہیں مشرق اور مغرب!

            یہ وہی الفاظ ہیں جو چودہویں رکوع میں تحویل ِقبلہ کی تمہید کے طور پر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک سمت میں محدود نہیں ہے،  بلکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سب اُسی کے ہیں۔

             یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ:   وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے۔  

UP
X
<>