قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 124
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کیں ۔ اﷲ نے (ان سے) کہا : ’’ میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔‘‘ ابراہیم نے پوچھا: ’’ اور میری اولاد میں سے ؟ ‘‘ اﷲ نے فرمایا : ’’ میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے ۔‘‘
سورۃ البقرۃ کے ابتدائی اٹھارہ رکوعوں میں روئے سخن مجموعی طور پر سابقہ اُمت ِمسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی جانب ہے۔ ابتدائی چار رکوع اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل ہیں، لیکن ان میں بھی یہود کی طرف روئے سخن کے اشارے موجود ہیں۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کی ابتدائی دو آیات تک، ان دس رکوعوں میں ساری گفتگو صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل ہی سے ہے، اِلّا یہ کہ ایک جگہ اہل ِایمان سے خطاب کیا گیا اور کچھ مشرکین ِمکہ کا بھی تعریض کے اسلوب میں تذکرہ ہو گیا۔
اس کے بعد اب حضرت ابراہیم کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم کی نسل سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دو شاخیں ہیں۔حضرت ابراہیم کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوئے، جو بڑے تھے، جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ سے اسحاق پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے یعقوب تھے، جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ حضرت اسماعیل کو حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کے پاس وادی ٔ غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا، جن سے ایک نسل بنی اسماعیل چلی۔ حضرت ابراہیم کے بعد نبوت حضرت اسماعیل کو تو ملی، لیکن اُس کے بعد تقریباً تین ہزار سال کا فصل ہے کہ اس شاخ میں کوئی نبوت نہیں آئی۔ نبوت کا سلسلہ دوسری شاخ میں چلا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف سب نبی تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ تک چودہ سو برس مسلسل ایسے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم کی نسل سے ایک تیسری شاخ بنی قطورہ بھی تھی۔ یہ آپ کی تیسری اہلیہ قطورہ سے تھی۔ ان ہی میں سے بنی مدین (یا بنی مدیان) تھے، جن میں حضرت شعیب کی بعثت ہوئی تھی۔ اس طرح حضرت شعیب بھی حضرت ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، حضرت اسماعیل کے بعد بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمد عربی کی بعثت ہوئی۔ آپ کی بعثت کے بعد امامت الناس سابقہ اُمت ِمسلمہ (بنی اسرائیل) سے موجودہ اُمت ِمسلمہ (اُمت ِمحمد علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام) کو منتقل ہو گئی۔ اس انتقالِ امامت کے وقت بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اور بنی اسماعیل کے ما بین قدر مشترک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے بات کا سمجھنا آسان ہو جائے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے جد امجد بھی ابراہیم ہی تھے اور یہ دوسری نسل بھی ابراہیم ہی کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اب اسے اہل توحید کا مرکز بنایا جا رہا ہے، چنانچہ پندرہویں رکوع سے اٹھارہویں رکوع تک یہ ساری گفتگو جو ہو رہی ہے اس کا اصل مضمون تحویلِ قبلہ ہے۔
آیت 124: وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰهِيم رَبُّہ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ: اور ذرا یاد کرو جب ابراہیم کو آزمایا اُس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اس نے ان سب کو پورا کر دکھایا۔
عید الاضحی اور فلسفہ ٔقربانی کے عنوان سے حضرت ابراہیم کی شخصیت ّپر میرا ایک کتابچہ ہے جو میری ایک تقریر اور ایک تحریر پر مشتمل ہے۔ تحریر کا عنوان ہے: حج اور عید الاضحی اور اُن کی اصل روح ۔ اپنی یہ تحریر مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں مَیں نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتحانات اور آزمائشوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ کے طویل سفر حیات کا خلاصہ اور لب لباب ہی امتحان و آزمائش ہے، جس کے لیے قرآن کی اصطلاح ابتلاء ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان کی پوری داستانِ ابتلا کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے، اور «فَاَتَمَّہُنَّ» کا لفظ ان تمام امتحانات کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان سب میں پورا اُترے، ان سب میں پاس ہو گئے، ہر امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔
قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا: تب فرمایا: (اے ابراہیم!) اب میں تمہیں نوعِ انسانی کا امام بنانے والا ہوں!
قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ: انہوں نے کہا : اور میری اولاد میں سے بھی!
یعنی میری نسل کے بارے میں بھی یہ وعدہ ہے یا نہیں؟
قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْن:َ فرمایا: میرا یہ عہد ظالموں سے متعلق نہیں ہو گا۔
یعنی تمہاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں گے ، نیک ہوں گے، سیدھے راستے پر چلیں گے، اُن سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ لیکن یہ عہد نسلیت کی بنیاد پر نہیں ہے کہ جو بھی تمہاری نسل سے ہو وہ اس کا مصداق بن جائے۔