قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 108
أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اسی قسم کے سوال کرو جیسے پہلے موسیٰ سے کئے جا چکے ہیں ؟ اور جو شخص ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا
آیت 108: اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْأَلُوْا رَسُوْلَـکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَـبْلُ: کیا تم مسلمان بھی یہ چاہتے ہو کہ سوالات (اور مطالبے) کرو اپنے رسول سے اُسی طرح جیسے اس سے پہلے موسٰی سے کیے جا چکے ہیں؟
مثلاً اُن سے کہا گیا کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں۔ اسی طرح کے اور بہت سے مطالبے حضرت موسیٰ سے کیے جاتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اُس روش سے باز رہو، ایسی بات تمہارے اندر پیدا نہیں ہونی چاہیے۔
وَمَنْ یَّـتَـبَـدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ: اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر لے لے گا وہ تو بھٹک چکا سیدھی راہ سے۔
ظاہر ہے کہ جو منافقین اہل ِایمان کی صفوں میں شامل تھے وہی ایسی حرکتیں کر رہے ہوں گے۔ اس لیے فرمایا کہ جو کوئی ایمان کو ہاتھ سے دے کر کفر کو اختیار کر لے گا وہ تو راہِ راست سے بھٹک گیا۔ منافق کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں منافقین کے لیے «مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ» کے الفاظ آئے ہیں۔ اب اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کفر کی طرف یکسو ہو جائے اور اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ بالآخر ایمان کی طرف یکسو ہو جائے۔ جو شخص ایمان اور کفر کے درمیان معلق ّ ہے اُس کے لیے یہ دونوں امکانات ہیں۔ جو کفر کی طرف جا کر مستقل طور پر اُدھر راغب ہو گیا یہاں اس کا ذکر ہے۔