June 22, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 106

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں ۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟

 آیت 106:    مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا:   جو بھی ہم منسوخ کرتے ہیں کوئی آیت یا اسے بھلا دیتے ہیں   

            ایک تو ہے نسخ یعنی کسی آیت کو منسوخ کر دینا اور ایک ہے حافظے سے ہی کسی شے کو محو کر دینا۔

             نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا:   تو ہم (اُس کی جگہ پر) لے آتے ہیں اُس سے بہتر یا (کم از کم) ویسی ہی۔  

             اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ:   کیا تم یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے؟  اسے ہر شے کا اختیار حاصل ہے۔

            اس آیت کا اصل مفہوم اور پس منظر سمجھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا دین آدم سے لے کر ایں دم تک ایک ہی ہے۔ نوح کا دین،  موسیٰ کا دین،  عیسیٰ کا دین اور ٌمحمدرسول اللہ   کا دین ایک ہی ہے ، جبکہ شریعتوں میں فرق رہا ہے۔ اس فرق کا اصل سبب یہ ہے کہ نوعِ انسانی مختلف اعتبارات سے ارتقاء کے مراحل طے کر رہی تھی۔ ذہنی پختگی،  شعور کی پختگی اور پھر تمدنی ارتقاء   (social  evolution) مسلسل جاری تھا۔ لہٰذا اُس ارتقاء کے جس مرحلے میں رسول آئے اسی کی مناسبت سے ان کو تعلیمات دے دی گئیں۔ ان تعلیمات کے کچھ حصے ایسے تھے جو ابدی (eternal) ہیں،  وہ ہمیشہ رہیں گے،  جبکہ کچھ حصے زمانے کی مناسبت سے تھے۔ چنانچہ جب اگلا رسول آتا تو اُن میں سے کچھ چیزوں میں تغیر و تبدل ّ ہو جاتا،  کچھ چیزیں نئی آ جاتیں اور کچھ پرانی ساقط ہو جاتیں۔ یہ معاملہ نسخ کہلاتا ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ تعین ّکے ساتھ کسی حکم کو منسوخ فرما دیتے ہیں اور اس کی جگہ نیا حکم بھیج دیتے ہیں،  یا کسی شے کو سرے َسے لوگوں کے ذہنوں سے خارج کر دیتے ہیں۔ یہودی یہ اعتراض کر رہے تھے کہ اگر یہ دین وہی ہے جو موسیٰ   کا تھا تو پھر شریعت پوری وہی ہونی چاہیے۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔

            پھر ناسخ و منسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا،  شریعت کا ابتدائی خاکہ  (blue print) سورۃ البقرۃ میں مل جاتا ہے،  لیکن شریعت کی تکمیل سورۃ المائدۃ میں ہوئی ہے۔ یہ جو تقریباً پانچ چھ سال کا عرصہ ہے اس میں کچھ احکام دیے گئے،  پھر اُن میں ردّ و بدل کر کے نئے احکام دیے گئے اور پھر آخر میں یہ ارشاد فرمادیا گیا: اَلْـیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا:  (المائدۃ: 3) «آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ہے»۔  تو یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت ِمحمدی کے ما بین ہی نہیں ہے،  بلکہ خود شریعت ِمحمدی (علیٰ صاحبہا الصلاة والسلام) میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شراب کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں گناہ کا پہلو زیادہ ہے،  اگرچہ کچھ فائدے بھی ہیں۔ اس کے بعد حکم آیا کہ اگر شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ ۔ پھر سورۃ المائدۃ میں آخری حکم آ گیا اور اسے گندا شیطانی کام قرار دے کر فرمایا گیا: فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ:   «تو کیا اب بھی باز آتے ہو یا نہیں»؟  اس طرح تدریجاً احکام آئے اور آخری حکم میں شراب حرام کر دی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم اُس جیسا دوسرا حکم لے آتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے،  اُس کا اختیار کامل ہے،  وہ مالک الملک ہے،  دین اُس کا ہے،  اس میں وہ جس طرح چاہے تبدیلی کر سکتا ہے۔

UP
X
<>