August 12, 2025

قرآن کریم > مريم >surah 19 ayat 64

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ لَهُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا

اور (فرشتے تم سے یہ کہتے ہیں کہ) ہم آپ کے رَبّ کے حکم کے بغیر اُتر کر نہیں آتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے، اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ سب اُسی کی ملکیت ہے۔ اور تمہارا رَبّ ایسا نہیں ہے جو بھول جایا کرے

 آیت ۶۴:  وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ:    «اور (اے نبی!) ہم (فرشتے) نہیں نازل ہوتے مگر آپ کے رب کے حکم سے۔»

            یہاں سے ایک بہت اہم مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ بات اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ کو قرآن کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی، جو عشق تھا، اس کا جو شغف اور شوق تھا، اس کی بنا پر وحی میں وقفہ آپ پر بہت شاق گزرتا تھا۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ وحی جلد از جلد آتی رہے تا کہ اس سے آپ اپنے وجودِ پُر نور کو مزید منور کرتے رہیں۔ اس حوالے سے آپ نے جبرائیل سے شکوہ کیا کہ آپ کی آمد وقفے وقفے سے ہوتی ہے، ہم انتظار کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے اس شکوہ کا یہاں جبرائیل کی طرف سے جواب دیا جا رہا ہے کہ اے نبی ہم اپنی مرضی سے نازل نہیں ہوتے، ہم تو آپ کے رب کے حکم کے پابند ہیں۔ اُس کا اِذن ہوتا ہے تو ہم نازل ہوتے ہیں۔

            لَہُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ:    «اُسی کے اختیار میں ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے۔»

            ان الفاظ میں بہت گہرائی ہے۔ آگے اور پیچھے کے درمیان میں کون ہے؟ وہی جو یہاں متکلم ہیں، یعنی خود جبرائیل! مراد یہ کہ میں بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوں اور فرشتے کی یہی شان ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام سے ِسرمو سرتابی نہیں کرتے، جیسا کہ سورۃ التحریم میں فرمایا گیا ہے:  لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ:   «وہ اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے جس کا وہ انہیں حکم دے، اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔»

            وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا :    «اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔»

            اے نبی! ہم آپ کے رب کی اجازت اور مشیت سے وحی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ اس میں جو تاخیر ہوتی ہے وہ کسی نسیان کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اُس کی مرضی اور حکمت سے ہوتی ہے۔ سورۃ الفرقان میں اس حکمت کی وضاحت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے:  کَذٰلِکَ لِنُثَـبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰـہُ تَرْتِیْلًا. «اسی طرح (ہم نے اسے نازل کیا) تا کہ مضبوط کر دیں اس کے ساتھ آپ کا دل اور (اسی لیے) ہم نے اسے پڑھ کر سنایا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے»۔ اور سوره بنی اسرائیل میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے:  وَقُرْاٰناً فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰـہُ تَنْزِیْلاً:    «اور قرآن کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے (کر کے نازل) کیا ہے، تاکہ آپ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائیں ٹھہر ٹھہر کر، اور ہم نے اس کو اتارا ہے تھوڑا تھوڑا کر کے۔» 

UP
X
<>