قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 80
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا
اور یہ دُعا کرو کہ : ’’ یا رَبّ ! مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما، اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال، اور مجھے خاص اپنے پاس سے ایسا اقتدار عطا فرما جس کے ساتھ (تیری) مدد ہو۔‘‘
آیت ۸۰: وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْق: «اور دعا کیجیے کہ اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا»
یہ ہجرت کی دعا ہے۔ جب ہجرت کا اِذن آیا تو ساتھ ہی یہ دعا بھی تعلیم فرما دی گئی کہ اے اللہ! تو مجھے جہاں بھی داخل فرمائے یعنی یثرب (مدینہ) میں، عزت و تکریم کے ساتھ داخل فرما، وہاں پر میرا داخلہ سچا داخلہ ہو، اور یہاں مکہ سے مجھے نکالنا ہے تو باعزت طریقے سے نکال۔ یاد کیجیے کہ سوره یونس کی آیت: ۹۳ میں بنی اسرائیل کو اچھا ٹھکانہ عطا کیے جانے کا ذکر بھی «مُبَوَّاَ صِدْقٍ» کے الفاظ سے ہوا ہے۔
وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا: «اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت عطا فرما۔»
یعنی مدینہ میں جس نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے اس میں اپنے دین کے غلبے کے اسباب پیدا فرما، اور مجھے وہ طاقت، قوت اور اقتدار عطا فرما جس سے دین کی عملی تنفیذ کا کام آسان ہو جائے۔ اس دعا میں رسول اللہ کو بالکل وہی کچھ مانگنے کی تلقین کی جا رہی ہے جو عنقریب آپ کو ملنے والا تھا۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ میں آپ کا استقبال ایک بادشاہ کی طرح ہوا۔ اوس اور خزرج کے قبائل نے آپ کو اپنا حاکم تسلیم کر لیا۔ یہودیوں کے تینوں قبائل ایک معاہدے کے ذریعے آپ کی مرضی کے تابع ہو گئے اور یوں آپ مدینہ میں داخل ہوتے ہی وہاں کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔