قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 73
وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَه وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا
اور (اے پیغمبر !) جو وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی ہے، یہ (کافر) لوگ تمہیں فتنے میں ڈال کر اُس سے ہٹانے لگے تھے، تاکہ تم اُ س کے بجائے کوئی اور بات ہمارے نام پر گھڑ کر پیش کرو، اور اُس صورت میں یہ تمہیں اپنا گہرا دوست بنا لیتے
آیت ۷۳: وَاِنْ کَادُوْا لَـیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہُ: «اور (اے نبی!) یہ لوگ تو اس بات پر تُلے ہوئے تھے کہ آپ کو فتنے میں ڈال کر اُس چیز سے ہٹا دیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے تا کہ آپ اس کے علاوہ کوئی اور چیز گھڑ کر ہم سے منسوب کر دیں»
یہ آیت اس بے پناہ دباؤ کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا سامنا رسول اللہ کو قریش کی طرف سے مکہ میں تھا۔ ایک طرف تو قریش مکہ آپ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ آپ قرآن کے غیر لچک دار اَحکام میں کچھ نرمی پیدا کریں، اس کلام میں کچھ ترمیم کر لیں، کچھ اپنی بات منوائیں اور کچھ ہماری مانیں۔ یہ مضمون اس سے پہلے سوره یونس (آیت: ۱۵) میں بھی آ چکا ہے: ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ: « (اے محمد) آپ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کریں یا پھر اس میں کچھ رد وبدل کر لیں۔»
دوسری طرف وہ مسلسل یہ مطالبہ بھی کیے جاتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو نشانی کے طور پر ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ ان کا یہ مطالبہ ان کے عوام تک میں بہت مقبول ہو چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور کی اپنی خواہش بھی یہی تھی کہ انہیں کوئی معجزہ دکھا دیا جائے، مگر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ انہیں کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس سے پہلے سورۃ الانعام (آیت: ۳۵) میں ہم اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں: وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ: «اور اگر آپ پر ان کی یہ بے اعتنائی گراں گزرتی ہے تو اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو زمین میں کوئی سرنگ کھودیں یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگائیں اور لے آئیں ان کے لیے کوئی معجزہ!» چنانچہ ان دونوں پہلوؤں سے حضور کو شدید دباؤ کا سامنا تھا، اور اسی دباؤ کا اظہار اس آیت میں نظر آ رہا ہے۔
وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً: «اور اگر آپ ایسا کرتے تب تو یہ لوگ آپ کو اپنا گاڑھا دوست بنا لیتے۔»
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نوعیت کی مداہنت (compromise) کے عوض وہ لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے۔