قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 48
يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُواْ للَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
اُس دن جب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جائے گی ، اور آسمان بھی (بدل جائے گا ) اور سب کے سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے
آیت ۴۸: یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ: «جس دن زمین بدل دی جائے گی اس زمین کے سوا (کسی اور شکل میں) اور آسمانوں کو بھی (بدل دیا جائے گا)»
یہ روزِ محشر کے منظر کی طرف اشارہ ہے۔ اس سلسلے میں قبل ازیں بھی کئی دفعہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق یوں لگتا ہے جیسے محشر کا میدان اسی زمین کو بنایا جائے گا۔ اس کے لیے زمین کی شکل میں مناسب تبدیلی کی جائے گی، جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔ سورۃ الفجر میں اس تبدیلی کی ایک صورت اس طرح بتائی گئی ہے: اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا. «جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کر دیا جائے گا»۔ پھر سورۃ الانشقاق میں فرمایا گیا ہے: وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ: «اور جب زمین کو کھینچا جائے گا»۔ اس طرح تمام تفصیلات کو جمع کر کے جو صورت حال ممکن ہوتی محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے تمام نشیب و فراز کو ختم کر کے اسے بالکل ہموار بھی کیا جائے گا اور وسیع بھی۔ اس طرح اسے ایک بہت بڑے میدان کی شکل دے دی جائے گی۔جب زمین کو ہموار کیا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، زمین کے پچکنے سے اس کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا اور سمندر بھاپ بن کر اُڑ جائیں گے۔ اسی طرح نظامِ سماوی میں بھی ضروری ردّ وبدل کیا جائے گا، جس کے بارے میں سورۃ القیامہ میں اس طرح بتایا گیا ہے: وَجُمِعَ الشَمْسُ وَالْـقَمَرُ: یعنی سورج اور چاند کو یکجا کر دیا جائے گا۔ واللہ اعلم!
حال ہی میں ایک صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ صاحب ماہر طبیعیات ہیں۔ میں نے اس کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی طرف اس سے پہلے توجہ نہیں کی گئی۔ اس لحاظ سے ان کی یہ باتیں یقینا قابل غور ہیں۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ قیامت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس وقت پوری کائنات ختم ہو جائے گی، بلکہ یہ واقعہ صرف ہمارے نظامِ شمسی میں رونما ہو گا۔ جس طرح اس کائنات کے اندر کسی گلیکسی یا کسی گلیکسی کے کسی حصے کی موت واقع ہوتی رہتی ہے اسی طرح ایک وقت آئے گا جب ہمارا نظامِ شمسی تباہ ہو جائے گا اور تباہ ہونے کے بعد کچھ اور شکل اختیار کرلے گا۔ ہماری زمین بھی چونکہ اس نظام کا حصہ ہے، لہٰذا اس پر بھی ہر چیز تباہ ہو جائے گی، اور یہی قیامت ہوگی۔ واللہ اعلم!
وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ: «اور یہ حاضر ہو جائیں گے اللہ کے سامنے جو واحد و قہار ہے۔»
سورۃ الفجر میں اس وقت کا منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے: وَّجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓئَ یَوْمَئِذٍ بِجَہَنَّمَ …: «اور اللہ تعالیٰ اس وقت نزول فرمائے گا، فرشتے بھی قطار در قطار آئیں گے اور جہنم بھی سامنے پیش کر دی جائے گی…» اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے کی کیفیت کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔ جس طرح ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نزول کی کیفیت کیا ہوتی ہے، اسی طرح آج ہم نہیں جان سکتے کہ روزِ قیامت جب اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائے گا تو اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ ممکن ہے تب اس کی حقیقت ہم پر منکشف کر دی جائے۔