June 7, 2025

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 94

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ

اور جب یہ قافلہ (مصر سے کنعان کی طرف) روانہ ہوا تو ان کے والد نے (کنعان میں آس پاس کے لوگوں سے) کہا کہ : ’’ اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے، تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ ‘‘

 آیت ۹۴:  وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ: « اور جب قافلہ چلا (مصر سے تو) ان کے والدنے فرمایا : مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، اگر تم لوگ یہ نہ کہو کہ میں سٹھیا گیا ہوں۔»

            یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کر لیں، مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی، کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو، جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدانِ جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اُس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں، اور آپ  نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیارکرنے کی بآوازِ بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدانِ جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ  کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔

UP
X
<>