9 Muharram ,1447 AHJuly 6, 2025

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 88

فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَيْهِ قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَآ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ 

چنانچہ جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے (یوسف سے) کہا : ’’اے عزیز ! ہم پر اور ہمارے گھروالوں پر سخت مصیبت پڑی ہوئی ہے، اور ہم ایک معمولی سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں پورا پورا غلہ دے دیجئے، اور اﷲ کیلئے ہم پر اِحسان کیجئے۔ یقینا اﷲ اپنی خاطر اِحسان کرنے والوں کو بڑا اَجر عطا فرماتا ہے۔ ‘‘

 آیت  ۸۸:  فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ:  « پھر جب وہ لوگ یوسف کے ہاں پہنچے»

            اگلے سال جب وہ لوگ اپنے والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور پھر حضرت یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔

             قَالُوْا یٰٓــاَیُّہَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ: « انہوں نے کہا: اے عزیز (صاحب اختیار)! ہم پر اور ہمارے اہل و عیال پر بڑی سختی آ گئی ہے»

            کئی سال سے لگا تار قحط کا سماں تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔ بھیڑ بکریاں بھی ختم ہو چکی ہوں گی۔ اب تو ان کی اون بھی نہیں ہو گی جو اناج کی قیمت کے عوض دے سکیں۔

             وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ: « اور ہم بہت حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، لیکن (اس کے باوجود) آپ ہمارے لیے پیمانے پورے بھر کر دیجیے»

            اس دفعہ ہم جو چیزیں غلے کی قیمت ادا کرنے کے لیے لے کر آئے ہیں وہ بہت کم اور ناقص ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سے غلے کی قیمت پوری نہیں ہو سکتی۔

             وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا: « اور ہمیں خیرات بھی دیجیے۔»

            اپنے انتہائی خراب حالات کی وجہ سے ہم چونکہ خیرات کے مستحق ہو چکے ہیں، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ اس دفعہ کچھ غلہ آپ ہمیں خیرات میں بھی دیں۔

             اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ: « یقینا اللہ صدقہ دینے والوں کو جزاد یتا ہے۔»

            چونکہ حضرت یوسف کے لیے یہ ساری صورتِ حال بہت رقت انگیز تھی، اس لیے آپ مزید ضبط نہیں کر سکے اور آپ نے انہیں اپنے بارے میں بتانے کا فیصلہ کر لیا۔

X
<>