قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 76
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاء أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاء أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
چنانچہ یوسف نے اپنے (سگے) بھائی کے تھیلے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے تھیلوں کی تلاشی شروع کی، پھر اُس پیالے کو اپنے (سگے) بھائی کے تھیلے میں سے برآمد کر لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی۔ اﷲ کی یہ مشیت نہ ہوتی تو یوسف کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھ لیتے، اورہم جس کو چاہتے ہیں ، اُس کے درجے بلند کر دیتے ہیں ، اور جتنے علم والے ہیں ، ان سب کے اُوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے
آیت ۷۶: فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْہِ: « تو آپ نے (تلاشی) شروع کی اُن کے بوروں کی اپنے بھائی کے بورے سے پہلے، پھر آپ نے نکال لیا وہ (جام) اپنے بھائی کے سامان سے۔»
کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ: « اس طرح سے ہم نے تدبیر کی یوسف کے لیے۔»
یہ ایک ایسی تدبیر تھی جس میں توریے کا سا انداز تھا اور اس سے مقصود کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس پورے خاندان کو آپس میں ملانا تھا۔ اس تدبیر کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے کہ حضرت یوسف نے اپنی طرف سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اللہ نے آپ کے لیے یہ ایک راہ نکالی تھی۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی تا کہ کسی ذہن میں یہ اشکال پیدا نہ ہو کہ ایسی تدبیر اختیار کرنا شانِ نبوت کے منافی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار بھی مطلق ہے اور اس کا علم بھی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ کو تو علم تھا کہ یہ عارضی سا معاملہ ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ: « آپ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔»
لفظ «دین» کی تعریف (definition) کے اعتبار سے قرآن کی یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہاں دِیْنِ الْمَلِکِ (بادشاہ کے دین) سے مراد وہ نظام ہے جس کے تحت بادشاہ اس پورے ملک کو چلا رہا تھا، جس میں بادشاہ اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty) کا مالک تھا۔ اس کا اختیار مطلق تھا، اس کا ہر حکم قانون تھا اور پورا نظامِ سلطنت و مملکت اس کے تابع تھا۔ اس حوالے سے «دین اللہ» کی اصطلاح بہت آسانی سے واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر اللہ کے اقتدار (Sovereignty) اور اختیار مطلق کو تسلیم کر کے پورا نظامِ زندگی اس کے تابع کر دیا جائے تو یہی «دین اللہ» کا عملی ظہور ہو گا۔ یہی وہ کیفیت تھی جو «دین اللہ» کے غلبے کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی گواہی سورۃ النصر میں اس طرح دی گئی ہے: اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ اسی طرح آج کا دین جسے عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیا جا رہا ہے « دین الجمہور» ہے۔ اس دین یا نظام میں قانون سازی کا اختیار جمہور یعنی عوام یا عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے، وہ جسے چاہیں جائز قرار دیں اور جسے چاہیں نا جائز، اور یہی سب سے بڑا کفر اور شرک ہے۔
بہر حال اس وقت مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا جس کو حضرت یوسف بدل نہیں سکتے تھے، کیونکہ آپ بادشاہ تو نہیں تھے۔ آپ کو جو اختیار حاصل تھا وہ اسی نظام کے مطابق اپنے شعبے اور محکمے کی حد تک تھا جس کے وہ انچارج تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ تدبیر نکالی۔ آپ کے بھائیوں سے پہلے یہ اقرار کرالیا گیا کہ جس کے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہو گا، سزا کے طور پر اسے خود ہی غلام بننا پڑے گا اور اس طرح حضرت یوسف کے لیے جواز پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکیں۔
نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ: « ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے چاہتے ہیں۔اور ہر صاحب علم کے اوپر کوئی اور صاحب ِعلم بھی ہے۔»
یعنی علم کے لحاظ سے علماء کے درجات ہیں۔ ہر عالم کے اوپر اس سے بڑا عالم ہے اور یہ درجات اللہ تعالیٰ کی ذات پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں، جو سب سے بڑا عالم ہے۔