قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 43
وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ
اور (چند سال بعد مصر کے) بادشاہ نے (اپنے درباریوں سے) کہا کہ : ’’ میں (خواب میں ) دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں ، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں ، اور سات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں ۔ اے درباریو ! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ۔ ‘‘
آیت ۴۳: وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ: « اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں، جن کو کھا رہی ہیں سات دبلی گائیں».
اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اُس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی، بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ (Hyksos Kings) حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی، پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا اُن علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں (قبطی قوم) کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔
وَّسَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ: « اور سات بالیاں ہیں ہری اور دوسری (سات) خشک۔»
یٰٓــاَ یُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِـیْ فِیْ رُؤْیَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّؤْیَا تَعْبُرُوْنَ: « تو اے میرے درباریو! مجھے بتاؤ تعبیر میرے خواب کی اگر تم لوگ خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو۔»