قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 41
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے میرے قید خانے کے ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ (قید سے آزاد ہو کر) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ رہا دوسرا، تو اُسے سولی دی جائے گی، جس کے نتیجے میں پرندے اُس کے سر کو (نوچ کر) کھائیں گے۔ جس معاملے میں تم پو چھ رہے تھے، اُ س کا فیصلہ (اسی طرح) ہو چکا ہے۔ ‘‘
آیت ۴۱: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہ خَمْرًا: « اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔»
یہاں پر رب کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ اس شخص کے خواب کی تعبیر ہے جس نے خود کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ شخص پہلے بھی بادشاہ کا ساقی تھا مگر اس پر کوئی الزام لگا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف نے خبر دے دی کہ اس کے خواب کے مطابق وہ اس الزام سے بری ہو کر اپنے پرانے عہدے پر بحال ہو جائے گا۔
وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہ: « اور جو دوسرا ہے اُسے سولی دے دی جائے گی اور پرندے اُس کے سر میں سے (نوچ نوچ کر) کھائیں گے۔»
قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ: « فیصلہ کر دیا گیا ہے اُس معاملے کا جس کے بارے میں تم دونوں مجھ سے پوچھ رہے تھے۔»