قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 108
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(اے پیغمبر !) کہہ دو کہ : ’’ یہ میرا راستہ ہے۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی۔ اور اﷲ (ہر قسم کے شرک سے) پاک ہے، اورمیں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں ۔ ‘‘
آیت ۱۰۸: قُلْ ہٰذِہ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ: « (اے نبی !) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے۔»
یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا، یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے، بلکہ میں اپنی بصیرتِ باطنی کے ساتھ، پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔
آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ blind faith بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لا سکتا ہے، لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے intelligentsia کا تسلط ہے، اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہو گا، یہ نظام تبدیل نہیں ہو سکتا۔
وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ: «اور اللہ پاک ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔»